لئے تیار کیاجاتا۔ یہی لوگ جب ہزاروں کی تعداد میں فارغ ہوکر نکلے تو لوگوں نے انہیں انبیاء ہی کے نام سے موسوم کرنا شروع کردیا اور پھر یہ اصطلاح اتنی عام ہوگئی کہ یہودیوں کی تباہی کے بعد جب دوبارہ بائبل کو مرتب کیاگیا تو ان کو انبیاء ہی رہنے دیا گیا۔
ہم یوں بھی ظلی نبوت کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے کہ عقلا ختم نبوت سے جو اصول متصادم ہے وہ مسئلہ ارتقاء کا ہے اور ارتقاء قطعی اس پر قانع نہیں کہ زندگی کے اصولوں اور بنیادوں کو بدلے بغیر برائے نام ایک منصب جاری رہے۔ اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں پوری مذہبی زندگی کا جائزہ لیا جائے اور اس کو وقت کے رجحانات کے مطابق بدلا جائے۔ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ارتقاء سرے سے مذہب کی اس حیثیت ہی کو نہیں مانتا کہ وہ زندگی کے حدود کو متعین کرسکتا ہے۔ اس لئے اگر اجرائے نبوت کے یہ معنی ہیں کہ ہردور میں ایک نئی شریعت آنا چاہئے اور ہر زمانے میں ایک نیا دستور وضع ہوناچاہئے تب تو اس کے کچھ معنی بھی ہیں۔ اگرچہ غلط ہیں اور اگر عملاً قیامت تک اسلامی کی فرمانروائی کو تسلیم کرنا ہے اور آنحضرتﷺ ہی کو بالآخر سند وحجت ماننا ہے تو پھر اس قیل وقال بیہودہ کا فائدہ؟
مرزاقادیانی کو اپنی اس کمزور پوزیشن کا احساس تھا کہ بغیر شریعت کے نبوت کا ڈھونگ کیا معنی؟ اس لئے عام طور پر اگرچہ وہ مصلحتاً زیادہ نہیں پھیلتے تھے اور مسلمانوں کو بظاہر یہی یقین دلاتے تھے کہ میری نبوت آنحضرتﷺ کی نبوت سے الگ کوئی شے نہیں ہے اور میں محض ان کا ایک خادم ہوں۔ وہ تو کثرت اطاعت وخدمت کا تقاضا ہے کہ ازراہ مجاز وظل مجھے نبوت کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ورنہ میں کوئی نئی چیز لے کر نہیں آیا۔ لیکن جب ذرا مزے میں آتے تھے تب اس جھول کو یوں پورا کرتے تھے کہ: ’’ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب الشریعت ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔‘‘ (رسالہ اربعین نمبر۴ ص۶،۷، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
جہاں تک تنقیح کی اس شق کا تعلق ہے کہ نبوت صرف ایک طرح کا اعزاز ہے یا اس کے سامنے کوئی نصب العین بھی ہے جو اب بالکل واضح ہے۔ اﷲتعالیٰ کی حکمتیں یہی چاہتی ہیں کہ اس کا کوئی فعل بھی بے معنی اور بے کار نہ ہو۔ قرآن حکیم میں متعدد انبیاء کا تذکرہ آیا ہے۔ اس میں ان کی ان خدمات جلیلہ کا تفصیل سے ذکر ہے جو انہوں نے انجام دیں۔ اس لئے اس پہلو پر بحث بے فائدہ ہے۔