میں نوازا ہے یا اس کے سامنے کوئی اصلاحی غرض بھی ہے۔ پھر اس پر غور کرنا ہے کہ کیا یہ اصلاحی غرض ایسے ڈھنگ کی ہے کہ کبھی نہ کبھی تکمیل پذیر ہوسکے یا اس کا مزاج ہی اس انداز کا ہے کہ ہمیشہ تشنہ اور نامکمل رہے۔
اجرائے نبوت کے تصور میں ساری خرابی اسی ایک تنقیح کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر صورت مسئلہ یہی ہے کہ نبوت محض ایک طرح کی بخشش وعطا ہے اور اس کے سامنے زندگی کا ایسا چوکھٹا نہیں ہے۔ جسے مکمل کرنا مقصود ہے یا زندگی چوکھٹا ہی ایسا ہے کہ زمانے کے تغیرات سے وہ روپ بدلتا رہتا ہے۔ تو یہ عقیدہ بلاشبہ صحیح ہوگا کہ نبوت کے کواڑ کھلے ہیں اور اگر اس کے برعکس نبوت سے متعلق تصور یہ ہے کہ اس سے کچھ مقصود ہے اور وہ مقصود ارتقاء کے ایک موڑ پر اپنے تمام مضمرات کے ساتھ اس طرح چشم نبوت کے سامنے کھل کر آجاتا ہے کہ پھر اس کی تکمیل واتمام میں کوئی زحمت محسوس نہیں ہوتی۔ تب ختم نبوت کے اصول کو صحیح ماننا پڑے گا۔ یعنی اگر انسانی معاشرہ کا ڈھنگ یہ ہے کہ یہ کسی منزل پر بھی نپے تلے اور جامع احکام کا محتاج نہیں ہے اور خود خیروصواب کی قدریں ہمیشہ تغیر پذیر اور متبدل رہی ہیں تو اجرائے نبوت کے عقیدہ کو ماننے کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہیں رہتا۔ لیکن اگر انسانی معاشرہ طفولیت سے گذر کر بلوغ کی تمام ممکن منزلیں طے کرچکا ہے اور مسائل زیربحث کے تمام پہلو نکھر کر انسان کے سامنے آگئے ہیں اور تہذیب وثقافت کا کوئی پہلو ایسا نہیں رہا کہ جو اس وقت نظروں سے اوجھل ہوتو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ ختم نبوت ہی کے مضبوط حصار میں انسانی فکروعمل کے لئے عافیت مضمر ہے۔ ورنہ یہ خطرہ ہے کہ نفس نبوت ہی پر سے اعتقاد نہ اٹھ جائے۔ کیونکہ آخر میں اجرائے نبوت کے یہی معنی تو ہوتے ہیںکہ اخلاقی ودینی قدریں اضافی اور غیر حقیقی ہیں۔ جن کا زمانہ کے ارتقاء اور تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتے رہنا قطعی ضروری ہے۔
یہ واضح رہے کہ ہمارے سامنے وہی اصطلاحی معنی ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں۔ اس کا ظلی اور بروزی ظہور قطعی خارج از بحث ہے۔ کیونکہ اگر بربنائے بخشش وعطا ہی نبوت کا اجراء ضروری ٹھہرتا ہے تو پھر اس بخشش وعطاء کو بہر آئینہ مکمل ہی ہونا چاہئے۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ایسے انبیاء کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ جن کی نبوت منفرد اور مستقل بالذات نہ ہو۔ بلکہ کسی بڑی نبوت کی شاخ یا فرع ہو۔ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام ہی کو دیکھئے۔ ایک ہی زمانہ میں ایک ہی قوم کی اصلاح کے لئے اﷲتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں۔ پھر ان میں عمروں کا تفاوت بھی اچھا خاصا موجود ہے۔ بلکہ نبوت کی عمر میں بھی تفاوت ہے اور نبوت بھی حضرت موسیٰ کی سفارش پر ملی