نہیں بناسکتے۔ یہی نہیں بلکہ اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ سب مل کر بھی اس کو چھڑا نہیں سکتے۔ اس کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اﷲفرشتوں اور انسانوں کو خلعت رسالت سے نوازتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں اس کے ایلچی تو ہوسکتے ہیں خدا نہیں۔
سورہ نساء کی چوتھی آیت میں ذکر ہی قیامت کی رفاقت کا ہے۔ اسی لئے وحسن اولئک رفیقا فرمایا۔ اس میںیہ کہیں مذکور نہیں کہ لوگ کسب واطاعت سے نبی ہو جائیںگے۔ شبہ غالباً حرف عطف سے پیدا ہوا ہے۔ حالانکہ اس میں صرف اتنا اشتراک کفایت کرتا ہے جو سب کو فی الجملہ شامل ہو اور وہ ہے رفاقت اخروی۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ہر بات میںیہ معطوفات بہم برابر کے شریک بھی ہوں۔ پھر رفاقت اخروی سے یہ کب لازم آتا ہے کہ نبوت بھی آنحضرتﷺ کے بعد حاصل ہوسکتی ہے۔
ہم اس پر بحث کرچکے ہیں کہ نبوت اطاعت کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ بلکہ انبیاء کی اطاعت نتیجہ ہوتی ہے ان کی نبوت کا، یعنی نبوت اﷲتعالیٰ کا ایک انعام تو ہے۔ لیکن یہ انعام پیغام اور دعوت کی ایسی صلاحیتوں کو پیدا کرنے کے بعد ملتا ہے۔ جن کا وجود خود اﷲتعالیٰ کے انتخاب پر موقوف ہے۔ چوتھی آیت سے استدلال صرف اس صورت میں ممکن ہے جب کہ کھلی تحریف کا ارتکاب کیا جائے۔ یا بنی اٰدم کا لفظ پکارپکار کر کہہ رہا ہے کہ اس سے مراد حضرت آدم کی اوّلین اولاد ہے۔ قرآن کھول کر اسی سورۃ میں قبل کی آیات پر نظر ڈالو۔ برابر تین جگہ یہی لفظ آیا ہے اور تینوں جگہ بنی آدم کو مخاطب کر کے ابتدائی تعلیمات سے آگاہ فرمایا ہے۔ پہلی جگہ لباس پہننے کی ہدایت فرمائی ہے۔
۱… ’’یابنی اٰدم قد انزلنا علیکم لباسا یواری سوأتکم وریشا‘‘ {اے بنی آدم ہم نے تمہاری ضرورت کے لئے لباس اتارا کہ تم اس سے اپنا جسم ڈھانپ سکو۔}
دوسری جگہ شیطان کے داؤں سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ جس سے تمہاری لڑائی ہے۔ ’’یابنی اٰدم لا یفتننکم الشیطان کمااخرج ابویکم‘‘ {اے بنی آدم دیکھو شیطان تمہیں اس طرح آزمائش میں نہ ڈالے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکال باہر کیا۔}
تیسری جگہ یہ فرمایا کہ نماز کے وقت کپڑے پہننا اور بھی ضروری ہے۔ ’’یا بنی اٰدم خذوا زینتکم عند کل مسجد‘‘ {اے بنی آدم نماز کے وقت کپڑے پہن لیا کرو۔}