حجیت صرف کتاب اﷲ اور سنت کو حاصل ہے
حضرات صوفیاء کے بعض اقوال بھی اس سلسلہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کی سلسبیل جاری ہے اور امت محمدیہ میں اب بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو ریاضت وتزکیہ نفس کی مشقتوں کو جھیل جھیل کر اپنے دل کے آئینہ کو اتنا چمکا لیں کہ ان پر فیوض نبوت کا پرتو پڑ سکے اور جو اپنی صلاحیتوں کو اس درجہ سنوار لیں کہ مقام نبوت کے تمام انوار وتجلیات ان کو حاصل ہو جائیں۔
اس سے پہلے کہ ان اقوال کا صحیح صحیح محمل ڈھونڈا جائے اور ان کے معانی کی ٹھیک ٹھیک تعیین کی جائے۔ یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ جہاں تک حجیت واستدلال کے دائروں کا تعلق ہے وہ کتاب اﷲ اور سنت رسول سے آگے نہیں بڑھتے۔ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے مکلف تو ہیں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوا ہے اس کو مانیں۔ اس کی وضاحت کریں اور اس پر جو شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں انکا جواب دیں۔ لیکن ہمارے لئے یہ سخت دشوار ہے کہ امت میں ہر ہر شخص کے اعتقادات کو حق بجانب ثابت کریں۔ بالخصوص جب سوال بنیادی عقیدوں کا ہو تو اس کے لئے تو لازماً ہمیں فکرونظر کی عنان کو کتاب اﷲ اور سنت رسول کی طرف ہی موڑنا چاہئے اور اس سے بالکل بے پرواہ ہوجانا چاہئے کہ کون کون کیا کیا کہتا ہے۔ کیونکہ دین صرف اﷲ کے احکام اور رسول کے عمل واسوہ سے تعبیر ہے۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ بشرط صحت لائق صد احترام ہے اور بصورت اختلاف وعدم صحت، محض اقوال الرجال۔
نظر کی کجی
ہماری نظر میں یہ ٹیڑھ ہے کہ جو عقائد ہمیں کتاب اﷲ میں تلاش کرنے چاہئیں اور جن تصورات کی پرچول ہمیں چمنستان نبوت میں کرنا چاہئے ان کو ہم ان لوگوں کی کتابوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہر وقت غلطی کر سکتے ہیں۔ جن کا پائے استقلال ہر جگہ پھسل سکتا ہے اور جن کی عصمت کی اﷲ اور اس کے رسول نے کبھی حامی نہیں بھری۔
نبوت کا مسئلہ ایسا نہیں ہے جسے امام عبدالوہاب شعرانی یا ابن العربی کے سپرد کیاجاسکے۔ یہ اصولاً نصوص چاہتا ہے۔ کتاب اﷲ اور حدیث کی واضح شہادات چاہتا ہے۔ یعنی اس مسئلہ کا مزاج اصولی اور بنیادی ہے۔ یہ استدلال واستنباط کی چیز نہیں۔ بلکہ ایسا عقیدہ اور تصور ہے جس کی تائید قرآن حکیم کی کھلی کھلی اورناقابل تاویل آیات سے ہونی چاہئے۔ یہی نہیں بلکہ اس عقیدہ کی اہمیت کا یہ تقاضا ہے کہ یہ عصر صحابہؓ میں مشہور ہواور صحابہؓ اور ان کے بعد تابعین