ہیں۔ یعنی ایک نبوت وہ ہے جو اس درجے کی ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کو ماننے کامکلف نہیں اور ایک وہ ہے جس کا ماننا ہرشخص پر شرعاً ضروری ہے۔ یہ دوسری قسم کی نبوت ان کے ہاں نبوت التشریع کہلاتی ہے۔ امام شعرانی فرماتے ہیں: ’’الفرق بینہما ھو ان النبی اذا القی الیہ الروح شیئان اقتصر بہ ذلک النبی علی نفسہ خاصۃ ویحرم علیہ ان یبلغ غیرہ ثم ان قیل لہ بلغ ما انزل الیک اما لطائفۃ مخصوصۃ کسائر الانبیاء اوعامۃ لم یکن ذلک الالمحمد سمی بہذا الوجہ رسولا وان لم یخص فی نفسہ بحکم لا یکن لمن الیہم فھو رسول لا نبی واعنی بہانبوۃ التشریع التی لا یکون للاولیاء (الیواقیت الجواہر ص۲۵)‘‘ {دونوں میں فرق یہ ہے کہ نبی پر جب وحی ہوتی ہے تو وہ اسکو صرف اپنی ذات تک محدود رکھتا ہے۔ اس کے لئے یہ ناجائز ہے کہ دوسروں کو ان الہامات کی دعوت دے اور اگر اس کو ان الہامات کی دعوت پر مامور کیاگیا ہے تو وہ ہماری اصطلاح میں رسول ہے۔ چاہے اس کا حلقہ چند لوگوں تک وسیع ہوا۔ چاہے ساری دنیا تک ممتد ہو اور ایسا رسول تمام کی رشد وہدایت کے لئے مامور ہو بجز آنحضرتﷺ کے اور کوئی نہیں آپ کو اسی مناسبت سے رسول کہاگیا ہے کہ آپؐ نے کسی حکم کی تبلیغ کو اپنی ذات تک محدود کر کے نہیں رکھا۔ یہی نبوت تشریعی ہے جو اولیاء کو حاصل نہیں ہوتی۔}
اس پوری عبارت پر غور فرمائیے۔ تو یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ صوفیاء کے ہاں نبوت کا ایک اپنا اطلاق ہے۔ جس میں اولیاء امت داخل ہیں۔ ورنہ جہاں ایسی نبوت کا تعلق ہے جس کا ماننا دوسروں کے لئے ضروری ہے اور جس کو وہ رسالت سے تعبیر کرتے ہیں تو حضرت امام کے نزدیک اس کے دونوں کو اڑ آنحضرتﷺ پر بند ہیں۔
’’قد ختم اﷲ تعالیٰ بشرع محمدﷺ جمیع الشرائع ولا رسول بعدہ یشرع ولا نبی بعدہ یرسل الیہ بشرع یتعبد بہ فی نفسہ انما یتعبد الناس بشریعتہ الیٰ یوم القیمۃ (الیواقیت الجواہر ج۲ ص۳۷)‘‘ {اﷲتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی شریعت سے جملہ شرائع کو ختم کردیا ہے۔ اب نہ تو کوئی نبی آنے والا ہے اور نہ کوئی رسول بھیجا جائے گا۔ جسے شریعت سے بہرہ مند کر کے مبعوث کیاگیا ہو۔ اب تو قیامت تک کے لئے لوگ آنحضرتﷺ کی شریعت ہی کو ماننے کے پابند ہیں۔}
اب رہی یہ بحث کہ صوفیائے کرام نے نبوت کے معنی میں یہ توسیع کیوں فرمائی کہ اس کا اطلاق اولیاء پر بھی ہوسکے تو یہ ایک لطیف بحث ہے۔ ہماری تحقیق یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری