سے ہے۔ ورنہ اس کے تحقیقی معنی وہی ہیں جو ہمارے حضرت پر منکشف ہوئے۔ سبحان اﷲ! آپ نے غور فرمایا کہ کتنی بڑی بات بے اختیار ان کے منہ سے نگل گئی اور ایسے ڈھنگ سے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوئی۔ بس اسی میں لطف ہے۔
لغت کی حقیقت
اس اجمال کی تفصیل اور اس معمہ کی حیثیت معلوم کرنے کے لئے اس پر غور کرنا ہوگا کہ خود یہ لغت کیا ہے؟ کیا اس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ اس میں ہزاروں الفاظ کے معانی سے بحث کی جاتی ہے اور بس۔ (ابوبکر زبیدی کی رائے میں صرف کتاب العین میں جن الفاظ کی وضاحت ہے۔ ان میں وہ الفاظ جن کا استعمال ہوتا ہے۔ ۵۶۲۰ہیں) یا اس کی حیثیت سے کچھ زیادہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا خلیل، قطرب، ابن مالک، جمال الدین بن مکرم، ابن ہشام، جوہری اور فیروز آبادی نے صرف الفاظ کی چہرہ کشائی فرمائی ہے۔ یا ان کی کوششوں سے بالواسطہ کچھ اور حقائق بھی منظر عام پر آئے ہیں۔
فن تفسیر کا اعجاز
کہنے کو قرآن حکیم کی تفسیر کے معنی محض یہ ہیں کہ اس میں مختلف دور کے علماء نے اپنے اپنے فہم اور انداز سے قرآن حکیم کو جو سمجھنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اس کی وضاحت ہے اور تحقیق سے دیکھئے گا تو اس کے ساتھ ساتھ مجلدات تفسیر میں ایک اور شئے بھی آپ کو ملے گی اور وہ یہ ہے کہ ان مفسرین کے زمانے میں کن علوم کا چرچا تھا۔ کیا کیا مسائل زیربحث تھے اور زیادہ تر دلائل کا کن نکات پر زور رہتا تھا۔ گویا عقلی تحریک کی ایک پوری تاریخ صرف ایک اس فن تفسیر سے مرتب کی جاسکتی ہے۔ یعنی فن تفسیر صرف فن تفسیر ہی نہیں بلکہ اسلامی ذہن کی ایک عقلی تاریخ بھی ہے۔
لغت ایک طرح کی تاریخ بھی ہے
اسی طرح جن لوگوں کی نظر اس حقیقت پر ہے کہ لغت ہر ہردور کے اطلاقات سے بحث کرتی ہے اور ہرہردور کی اصطلاحات وتاویلات کی گرہیں کھولتی ہے۔ انہیں اس حقیقت کے پالینے میں کوئی دشواری نہیں محسوس ہوگی کہ اس کی ایک حیثیت تاریخ کی بھی ہے۔ یہ جہاں یہ بتاتی ہے کہ ایک لفظ کا شجرہ نسب کیا ہے۔ اس کے کیاکیا استعمالات ومشتقات ہیں۔ وہاں یہ بھی بتاتی ہے کہ زمانے کے مختلف ادوار میں کن کن نئی اصطلاحات کا اضافہ ہوا اور کن کن الفاظ کے معنی میں کیا کیا تغیر رونما ہوا۔ چنانچہ اہل لغت میں ایک گروہ مستقل طور پر وہ ہے جس نے خصوصیت سے