جب پیغمبر امت کے روحانی باپ ٹھہرے تو اس رشتہ کی وضاحت تو ہوگئی جس کا جاننا مقصود تھا۔ اب خاتم النبیین کہہ کر اسی رشتہ کی محکمی اور استواری کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ پھر یہ باپ بھی ایسا معمولی باپ نہیں جس کی شفقتوں سے تم کسی وقت محروم ہو جاؤ۔ نہیں یہ اس ڈھب کا باپ ہے کہ قیامت تک کے لئے اس کی پدرانہ شفقتیں زندہ رہیںگی۔ اب اس کے بعد اور کوئی ایسا سرپرست نہیں پیدا ہونے کا جو تمہارا باپ کہلائے۔ کیونکہ یہ آخری نبی ہے۔
سورہ سباء کی آیت میں فرمایا: ’’تم کو تمام لوگوں کی طرف بھیجا ہے۔‘‘ یعنی اگر قیامت تک کی کائنات انسانی کو ایک عصر میں جمع کیا جاسکے تو وہ آنحضرتﷺ کا عصر نبوت ہوگا۔ کافہ کا لفظ ان سب لوگوں پر بولا گیا۔ جو کسی وقت بھی آپ کی دعوت کے مخاطب ہوسکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی دعوت کا یہ پھیلاؤ اس لئے ہے کہ دین کے سارے تقاضے ہی مکمل ہوچکے۔ اب کوئی حالت منتظرہ نہیں رہی۔ جس کے لئے کوئی نیا نبی پیدا ہو۔ اکمال دین اور اتمام نعمت کا جس کا تذکرہ سورۂ مائدہ میں ہوا ہے۔ یہی مطلب ہے۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کو دوسری جگہ سورۃ فرقان میں للعٰلمین نذیراً کہہ کر پکارا۔ یعنی آپ کی تبلیغ واشاعت کا دائرہ تمام ’’عوالم‘‘ تک ممتد ہے اور عوالم کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں دنیائے انسانیت کی پوری وسعت کے لئے سمائی ہے۔ ان آیات کو ان احادیث کے ساتھ ملائیے جن میں ختم نبوت پر مختلف طریق سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ پہلی ہی حدیث صحیحین کی ملاحظہ ہو کہ اپنے مفہوم میں کس درجہ متعین اور واضح ہے۔ یعنی نبوت کو ایک قصر تصور کرنا اور پھر آنحضرتﷺ کا اپنے کو اس قصر کی آخری اور تکمیلی اینٹ قرار دینا کتنی عمدہ تشبیہ ہے۔ اس میں غور طلب حقیقت یہ ہے کہ: ’’ختم بی البنیان وختم بی الرسل‘‘ فرماکر آنحضرتﷺ نے لفظ ختم کے مورد ومعنی کو بالکل واضح فرمادیا ہے۔ یعنی خاتم النبیین میں جو جہل ونادانی سے ایک بالکل نئے معنی پیداکئے جاتے تھے۔ ان کا بخوبی انسداد ہوگیا۔
دوسری حدیث سے جو مسلم میں ہے۔ لفظ کافۃ کی تشریح ہوگئی کہ ختم نبوت کے مترادف ہے۔ جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ ’’وارسلت الیٰ الخلق کافۃ وختم بی النبیون‘‘ {مجھے تمام دنیا کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا اور مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔}
ترمذی کی اس حدیث سے کہ: ’’اگر میرے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا مقدر ہوتا تو عمرؓ نبی ہوتے۔‘‘ اس شبہ کا ازالہ ہوگیا کہ نبوت محض ایک فضیلت ہے جو کثرت اطاعت یا آنحضرت کے ساتھ ایک مخصوص لگاؤ کی وجہ سے عطاء ہوتی ہے۔