ان دلائل کی وضاحت
آیات واحادیث کی یہ فہرست آپ کے سامنے ہے۔ اس میں دیکھنے اور دکھانے کی یہ چیز ہے کہ ایک ہی حقیقت کو قرآن وسنت میں کس کس ڈھنگ سے بیان کیاگیا ہے۔ اس مجموعہ کی ہر ہر آیت اور حدیث اس لائق ہے کہ تنہا اس کو مسئلہ زیر بحث کے لئے استدلال واستنباط کا مبنیٰ قرار دیا جائے۔ تاہم اس کفایت ووضاحت کے باوجود ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ دلائل وشواہد کی پوری بوقلمونی پر نظر ڈالئے۔ تاکہ کوئی گوشہ نظر سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ پھر ہم یہ دیکھیںگے کہ ذوق وفہم کی کجی تاویل وتحریف کے کن کن مورچوں پر پناہ ڈھونڈتی ہے۔
نگاہ کی چشم کی زلف دوتا کی
سہے دل جفا کس کس بلا کی
یوں تو جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے۔ ایک ایک آیت وحدیث میں ختم نبوت کی ایسی تعبیر پڑی چھلک رہی ہے کہ شبہ کے لئے کوئی موقع ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر ان سب کو ایک ساتھ جوڑنے اور ملانے میں جو لطف ہے وہ تنہا ایک ایک میں کہاں۔ ہم اس پورے مجموعے کو قائم رکھتے ہوئے ان دلائل کے متعلق صرف اس حد تک مختصراً تعرض چاہتے ہیں جس حد تک بعض پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور نظر کے سامنے لانے کا تعلق ہے۔ تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ کتاب وسنت میں ان تمام شکوک وشبہات کو کیونکر پہلے سے مرعی رکھاگیا ہے جو کسی وقت دل میں پیدا ہوسکتے ہیں اور پھر کتنی خوبی سے ان کا سدباب کیاگیا ہے۔
پہلے سورۃ احزاب کی اس آیت کو لیجئے۔ جس میں آنحضرتﷺ کو ’’خاتم النبیین‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے اور بغیر کسی خارجی شہادت کے اس کی داخلیت پر غور فرمائیے۔ یہاں جس بات کی تردید کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کو جو جناب زیدؓ کا باپ کہا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ وہتوصرف آپ کے لے پالک تھے اور لے پالک کسی شکل میں بھی حقیقی بیٹے جیسا نہیں ہوتا۔ اس کی تردید کے لئے اﷲتعالیٰ نے یوں فرمایا کہ زید توزید آنحضرتﷺ تم میں سے کسی مرد کے بھی حقیقی باپ نہیں ہیں۔ ظاہر ہے اس انداز تردید سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچھا باپ نہیں ہیں نہ سہی۔ پھر اور کیا رشتہ ہے؟ ان کے اور ان کی امت کے درمیان؟ تو فرمایا وہ رسول ہیں۔ یعنی روحانی باپ ہیں۔ اس معنی کو کہ نبی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ دوسری جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ’’وازواجہ اماتہم (احزاب)‘‘ {اور اس کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں۔}