ازالہ اوہام میں کی ہے۔ اس میں مخاطب عیسائی نہیں بلکہ علماء زاہد، صوفی، سجادہ نشین قوم کے منتخب لوگ ہیں۔ چنانچہ (ازالہ ص۲، خزائن ج۳ ص۱۰۲) میں لکھتے ہیں۔ ’’اے بزرگو! اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے۔ غیض وغضب میں آکر حد سے مت بڑھو۔‘‘ پھر چند سطور میں آگے لکھتے ہیں۔ ’’اے میرے مخالف الرائے مولویو اور صوفیو اور سجادہ نشینو جو مکفر اور مکذب ہو۔‘‘ پس ازالہ میں مخاطب نہ عیسائی ہیں اور نہ انجیل کے تحریرات ان کے مسلمات میں سے ہیں۔
پس یہ سخت کلامی الزامی جوابات پر محمول نہیں ہوسکتی۔ علیٰ ہذا اعجاز احمدی بھی عیسائیوں کے مقابلے میں نہیں لکھی گئی۔ بلکہ مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسری اور مولوی سرور شاہ صاحب قادیانی کے درمیان موضع لد میں مناظرہ ہوا تھا۔ جس میں فاتح قادیان کو فتح ہوئی۔ مرزاقادیانی نے شکت درشکست کو چھپانے کے لئے اعجاز احمدی لکھ کر چند علماء اور بزرگوں کو مخاطب کیا۔ چنانچہ (اعجاز احمدی ٹائٹل پیج، خزائن ج۱۹ ص۱۰۷) پر یہ عبارت موجود ہے۔
اور اس رسالہ میں پیر مہر علی شاہ صاحب، مولوی اصغر علی صاحب اور مولوی علی الحائری صاحب شیعہ وغیرہ بھی مخاطب ہیں۔ جن کا نام رسالہ میں مفصل درج ہے۔
اعجاز احمدی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جو مفقصت اور توہین کی گئی ہے۔ اس کے متعلق یہ نہیں کہاجا سکتا کہ اقوال الزامی طور پر پیش کئے گئے ہیں۔ کیونکہ اعجاز احمدی میں مخاطب علماء اور بزرگ ہیں اور یہ ان کے مسلمات میں سے نہیں پھر ان کو الزامی طور پر کہنا کیسے صحیح ہے۔ علیٰ ہذا مرزاقادیانی نے دافع البلاء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عفت وعصمت کو معرض طعن میں پیش کرتے ہوئے قرآن حکیم کی ایک آیت سے استدلال پیش کیا ہے۔ کیا قرآن کریم عیسائیوں کے مسلمات میں سے تھا۔ جس کو مرزا قادیانی بطور الزام پیش کر رہے ہیں۔ بلکہ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ امور قبیح اور ناپاک قصے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کئے گئے ہیں۔ نہ صرف مرزاقادیانی کے نزدیک سچے ہیں۔ بلکہ اﷲتعالیٰ کے نزدیک بھی صحیح ہیں۔ جن کی بناء پر خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حصور نہیں کہا۔ ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم‘‘ الغرض اس قسم کے بیسوں نظائر دئیے جاسکتے ہیں۔ مگر محض اختصار کی خاطر ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
۲… الزامی جواب میں ایسے قرائن اور الفاظ موجود ہوتے ہیں۔ جن سے