خدائے لایزال میںفرق ہے۔ قدرت یہ ہے کہ جب جو چاہے کرے۔ مگر مشیت یہ ہے کہ یہ اختلافات تبلیغ کے ذریعہ رفع ہوں اور اگر نہ ہوں تو ان کا فیصلہ اﷲتعالیٰ خود قیامت کے دن کردے گا۔ قرآن پاک میں بارہا حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم یہ نیت نہ کرچکے ہوتے کہ ہم ان اختلافات کا قضیہ قیامت کے روز چکائیںگے تو ہم کبھی کا ان کفار کا قصہ ہی پاک کر دیتے۔
مگر ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک راز قدرت ہے۔ جس پر انسان حاوی نہیں۔ روحانی امور میں بھی جسمانی امور کی طرح بعض جگہ انسان معذور ہے اور اس معذوری کے باوجود اس پر ایمان لانا ایمان بالغیب ہے۔ انسان سورج سے روشنی اور گرمی پاتا ہے اور اس روشنی اور گرمی سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ لیکن وہ اس روشنی اور گرمی کی مقدار یا اس کے معیار کو گھٹانے یا بڑھانے سے معذور ہے۔ اسی طرح روحانیت میں انسان جانتا ہے کہ یہ اختلافات برے ہیں۔ خون ریزی اور فتنہ وفساد کا سبب ہیں۔ وہ براہین قاطعہ پیش کرتا ہے۔ لیکن پھر بھی اس کے مخالف اس کی بات پر کان نہیں دھرتے۔ وہ گھبراتا ہے لیکن خود کو بے بس پاتا ہے۔ اس لئے کہ مشیت ایزدی یہی ہے۔
اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابراہیم کو نار نمرود میں ڈالا گیا۔ حکم ہوا کہ اے آگ ابرہیم کے لئے سرد ہو جا اور سلامتی کا سبب بن جا اور ایسا ہی ہوا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس خدا میں یہ قوت تھی کہ وہ آگ کو سرد کر دے اور آزار کی بجائے سلامتی کا سبب بنادے کیا وہ یہ قدرت نہیں رکھتا تھا کہ اس آگ کے جلانے والوں کو آگ جلانے کا موقعہ ہی نہ دیتا یا ان کے دل ہی پیغام ابراہیم کی طرف پھیر دیتا۔
یقینا اس میں یہ قدرت تھی۔ لیکن مشیت ایزدی یہی تھی کہ ایسا نہ کیا جائے اور غور کرو تو ابراہیم علیہ السلام کے جوہر کھلے تو اس طرح کہ آگ ان کے سامنے جلی۔ اس کا اعلان ان کے روبرو ہوا۔ ان کو وہاں تک پہنچایا گیا۔ موت اور بدترین عقوبت کی موت سامنے نظر آئی۔ انہیں اٹھا کر اس میں پھینکا گیا۔ انہیں علم نہ تھا کہ آگ ان کے لئے سرد ہو کر سلامتی کا سبب بن جائے گی۔ یہ تسلیم ورضا کے آخری امتحان میں کامیاب ہوئے اور پھر انعام واکرام الٰہی سے فائز المرام ہوئے۔ اگر جبراً کفار کے دل پھیر دئیے جاتے تو دین کا خزانہ آج رضائے الٰہی کے روبرو انتہائی تسلیم کے ان موتیوں سے خالی ہوتا۔ جن کا وجود ابراہیم کے پسینے اور سید الشہداء علیہ السلام کے پاک خون سے پید اہوا۔
پس یہ مشیت ہے کہ دین فطرت کے خلاف ادیان وعقائد باطلہ پیدا ہوں۔ ترقی کریں اور موجود رہیں۔ لیکن یہ سب پیدا ہوتے اور مٹتے رہتے ہیں۔ دین فطرت البتہ ازل سے