موجود ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ مبارک ہے وہ جو عقائد باطلہ کی مؤقت ترقی اور چمک دمک سے فریب نہ کھائے۔ دعاء ہے کہ اﷲتعالیٰ ہر مسلمان کو اس دھوکے سے محفوظ رکھے۔ آمین!
اب تک جو کچھ عرض ہوا وہ ایک اصول اعتقاد تھا کہ عقائد باطلہ اور ادیان کاذبہ کیوں قائم رہتے اور بظاہر ترقی کرتے ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ نکتہ بہت باریک ہے۔ اس کے اظہار کے لئے مجھ سے زیادہ صاحب استطاعت وعلم، انسان اور مجھ سے کہیں زیادہ صاحب قوت اہل قلم کی ضرورت ہے۔ تاہم ممکن ہے کہ مسلمانوں کا ایک حصہ اس دلیل سے مطمئن ہوجائے۔ مگر حصہ کثیر ایسا ہے کہ اس کے فہم ہی سے یہ دلیل بالا تر ہے اور اس کے سمجھانے کے لئے زیادہ واضح اظہار خیال کی ضرورت ہے۔
۲… تحریک قادیان کی ظاہری ترقی کے دنیوی اسباب کے متعلق کچھ عرض کرنے کے لئے مجھے ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی تاریخ کے ابواب کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ جو لوگ موجود الوقت دول یورپ کی تبلیغی جدوجہد سے آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مرکز مسیحیت کا ہر بادشاہ یا صدر جمہور ’’یمین الدین‘‘ کے لقب سے ملقب ہے اور تبلیغ مسیحیت ان کی حکومت کا جزو لا ینفک ہے۔ چنانچہ دور کیوں جاؤ۔ برطانیہ ہی کے نظام حکومت پر نگاہ ڈالو تو معلوم ہوگا کہ محکمہ جات دفاع، مالیات اور خارجہ کی طرح محکمہ دینیات بھی نظام سلطنت کا ایک جزو لاینفک ہے۔ لیکن ہندوستان میں مسلمانوں نے جو سلطنت قائم کی۔ اس میں دینیات کو یہ مرتبہ کبھی حاصل نہیں ہوا۔ البتہ اتنا ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس ملک میں جو مسلمان بادشاہ ہوئے۔ وہ درس وتدریس کے لئے کافی جاگیریں دیا کرتے تھے۔ جن کی وجہ سے ہر مسجد درسگاہ بن گئی تھی۔ جو تعلیم دین کے لئے ایک مرکز کا کام دیتی تھی۔ لیکن اس کرم فرمائی سے مندر بھی مستثنیٰ نہ تھے۔ تاہم مجھے چونکہ اس وقت مسجدوں ہی سے تعلق ہے۔ لہٰذا میں انہی کا ذکر کروں گا۔ ان کے متعلقین یعنی علماء اور صوفیاء بھی عوام وحکام دونوں کی عقیدت اور خدمت کے باعث قوت لایموت سے بے پرواہ ہوکر تبلیغ دین کے کام میں مصروف رہتے تھے۔
غرض یہ کہ تبلیغ اسلام کا کام حکومت کی بجائے غیر سرکاری ذرائع کا شکر گذار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کا مرکز تو تھا آگرہ اور مسلمان زیادہ ہوئے بنگالہ میں۔ جہاں صوفیا کا گذر زیادہ تھا۔ اس صورت حالات نے بھی اکبر اعظم کے وقت میں پلٹا کھایا ان کے زمانہ میں ہندو ومسلم اتحاد کی سیاسی ضرورت کے باعث قومیت ہند کے باپ جلال الدین اکبر نے شعار اسلام کو بالکل