کل عیسائیت کے بارہ میں سکھایا جاتا ہے۔ یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کرسکتے۔‘‘
مرزاقادیانی صرف اتنی صفائی پر کفایت نہیں کرتے۔ بلکہ اسی کتاب (تحفہ قیصریہ ص۲۰، خزائن ج۱۲ ص۲۷۲) میں لکھتے ہیں۔ ’’اس نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے۔ لیکن جیسا کہ گمان کیاگیا ہے۔ خدا نہیں ہے ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں۔‘‘ اس اقتباس سے یہ معلوم ہوا کہ جس یسوع کو مرزاقادیانی برگزیدہ اور کاملوں کے گروہ سے شمار کرتے ہیں۔ وہی عیسائیوں کے یسوع ہیں۔ جن کو خدا بنایا گیا ہے اور قوم کے اس ناجائز فعل کے باوجود بھی حضرت یسوع کی برگزیدگی اور کمال میں کوئی نقص نہیں آیا۔ مرزاقادیانی کا یہ پرواز طبع اتنی تعریف پر بھی کفایت نہیں کرتا۔
بلکہ (تحفہ قیصریہ ص۲۳، خزائن ج۱۲ ص۲۷۵) پر لکھتے ہیں۔ ’’جس قدر عیسائیوں کو حضرت یسوع مسیح سے محبت کرنے کا دعویٰ ہے۔ وہی دعویٰ مسلمانوں کو بھی ہے۔ گویا آنجناب کا وجود عیسائیوں اور مسلمانوں میں ایک مشترک جائیداد کی طرح ہے اور مجھے سب سے زیادہ عقیدت ہے۔ کیونکہ میری طبیعت یسوع میں مستغرق ہے اور یسوع کی مجھ میں۔‘‘
اس عبارت نے بہت سے اہم مطالب کو صاف کردیا ہے۔
اوّل! یہ کہ جو عیسائیوں کا یسوع ہے اور جس کی محبت کا ان کو دعویٰ ہے۔ بعینہ اس کی محبت کا دعویٰ مسلمانوں کو بھی ہے۔
دوم! یہ کہ عیسائیوں کا یسوع مسیح مسلمانوں اور عیسائیوں میں یکساں واجب الاحترام ہے۔
سوم! یہ کہ عیسائیوں کے یسوع مسیح کی محبت اور احترام میں مرزاقادیانی تمام عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے زیادہ حقدار ہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی کی طبیعت کو یسوع میں اور یسوع کی طبیعت کو مرزاقادیانی میں استغراق ہے۔
چہارم! یہ کہ مرزاقادیانی کی طبیعت کو جس یسوع کی طبیعت میں استغراق ہے وہ عیسائیوں کا یسوع ہے۔
پس ثابت ہوا کہ عیسائیوں کا یسوع مسیح راست واجب الاحترام نبی ہے۔ اب