میںنے اس کی گیتا کو سنسکرت میں نہیں دیکھا۔ اس لئے کہ میں سنسکرت سے ناآشنا ہوں۔ لیکن میں نے جیل میں ہندی اور گورمکھی کو درساً پڑھ کر گیتا کا ہندی میں مطالعہ کیا۔ اس سے قبل میں اردو میں گیتا جی کا ترجمہ پڑھ چکاتھا اور فیضی خلد آشیاں کا فارسی ترجمہ بھی بہت تعمق وغور کے ساتھ دیکھ چکا تھا۔ میں نے گیتا بعض پنڈت صاحبان سے درساً پڑھی ہے۔ جن میں سے سب سے پہلے مشہور قومی کارکن پنڈت نیکی رام صاحب شرما تھے۔ ان پنڈت صاحب سے میانوالی جیل میں خوب لطف صحبت رہا۔ بہت شریف اور مخلص انسان ہیں۔ کئی ہندو سیاسی قیدی ان سے گیتا پڑھا کرتے تھے۔ سب سے دور ایک مسلمان بھی اپنی فارسی اور اردو اور ہندی کے گیتا کے نسخے لئے ہوئے مؤدب بیٹا کرتا تھا اور توجہ سے ان کی باتیں سنا کرتا تھا۔ ظن بلکہ سوئے ظن بدنصیبی سے ہم مسلمانوں کی طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ مسلمان سیاسی قیدی اپنے اس گیتا خواں بھائی کے متعلق عجیب وغریب خیالات کااظہار کیا کرتے تھے۔ لیکن یہ ان سب کی طرف سے بے پرواہ ہوکر علم کے موتی جمع کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ یہ طالب علم یہی خاکسار حبیب تھا۔ جس کی یہ تقریر ناظرین کرام ملاحظہ فرمارہے ہیں۔
گیتا کے سب سے بڑے مؤید زمانہ حال میں مہاتما گاندھی جی مہاراج ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ ایک جنگ میں مصروف ہیں اور گیتا بھی میدان جنگ میں لکھی گئی۔ یہ کوئی شریعت کی کتاب نہیں کہ اس کو کسی نبی کا کلام یا الہامی کتاب سمجھا جائے۔ بلکہ یہ فلسفۂ جنگ ہے اور بس۔ واقعہ یہ ہے کہ گرو اور پانڈو بھائی بھائی تھے۔ ان میں جنگ ہوگئی۔ ایک فریق کا سب سے بڑا بہادر اپنے بھائیوں کا خون گراتے ہوئے گھبراتا تھا۔ وہ موت کو جنگ پر تر جیح دیتا تھا۔ کرشن جی نے اسے جنگ پر اکسایا اور جن الفاظ میں اکسایا یا جن دلائل سے اسے قائل کیا وہ گیتا کی پونجی ہیں۔ اپنے مقاصد کے لحاظ سے یہ کتاب بہت اعلیٰ ہے۔ مگر چونکہ الہامی کتاب نہیں۔ اس لئے اس میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی۔ اس خوبیوں کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔ کرشن جی ایک جگہ ارجن کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تو جنگ کر اس لئے کہ ؎
شہادت کہ نبود ازاں برتری
نصیبے کسے نیست جز چھتری
اگر مردہ گردی بہ خلد است جا
دگر فتح یا بی شوی پادشاہ