اب حالت یہ ہے کہ ماں مر جائے تو بیٹا احمدی ہونے کی صورت میں جنازہ میں شامل نہیں ہوتا۔ گویا نماز شمول سے نکار کر کے احمدی بھائیوں نے ہم مسلمانوں کے کفر پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ لیکن تقاضائے انصاف یہ ہے کہ میں تسلیم کروں کہ شیعہ اور سنی مسلمان بھی ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ یہ شرف اہل حدیث گروہ ہی کو حاصل ہے کہ اس نے شمول نماز سے انکار نہیںکیا۔ لیکن شیعہ سنی اختلاف عوام کا اختلاف ہے۔ اس کو نبوت کی تصدیق حاصل نہیں۔ شیعہ اور سنی دلائل سے ایک دوسرے کو کافر ٹھہراتے ہیں اور ان کا استدلال غلط ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ اس کو خدائے تعالیٰ کی تصدیق حاصل نہیں۔ برعکس ازیں مرزاقادیانی مدعی نبوت ہیں اور ان کا اعلان تکفیر گویا خدا کی طرف سے تمام غیر مرزائی مسلمانوں کے لئے اعلان تکفیر ہے اور ظاہر ہے کہ ان دوصورتوں میں بعد المشرقین ہے۔
نیز مرزاقادیانی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے جو از بس اندوہناک ہے۔ مرزاقادیانی کی آمد تک غیر معروف اور تعداد کے لحاظ سے قابل تغافل فرقوں کے علاوہ صرف شیعہ سنی جماعت ہی میں اختلاف نماز پیدا ہوا، اور یہ اختلاف صر ف ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے تک محدود رہا۔ اس کے علاوہ تمام ارکان اسلام پر ان کا اجتماع رہا۔ خصوصاً حج پر، لیکن مرزاقادیانی کے مریدوں نے اگر اصولاً نہیں تو عملاً قادیان کو اپنا مرکز حج بنالیا ہے اور یہ بات نہایت ہی اندوہناک ہے۔ ان کا یہ فعل بھی مرزاقادیانی کے ایک قول پر مبنی ہے۔ وہ اپنی کتاب درثمین جلد دوم کے صفحہ ۵۲ پر لکھتے ہیں کہ ؎
زمیں قادیان اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
مجھے معلوم نہیں کہ کسی احمدی دوست نے حج کے لئے ارض مقدسہ حجاز کو جانے کی تکلیف گوارا کی ہو۔ لیکن یہ بات میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ اگر اس میں لاعلمی کی وجہ سے مجھ سے کوئی غلطی ہوئی تو خدا مجھے معاف کرے۔ (مجھے اتنا لکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ جماعت قادیان کے خلیفہ ثانی اور بعض اور قادیانی اصحاب حج کر آئے ہیں۔ مگر عام رجحان یہی ہے کہ حج پر سفر قادیان کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہ رجحان روبہ ترقی ہے۔ حبیب)
اسی موقعہ پر میں اس امر کے خلاف بھی احتجاج کرنا بطور مسلمان اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جس قدر اسلامی الفاظ حضور سرورکائنات فداہ روحی اور ان کے آل کے ساتھ مخصوص ہیں۔