پیروی نہ کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہ ہوگا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے۔‘‘
نیز آپ نے ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب مرحوم کے نام ایک خط لکھا۔ جس میں آپ نے تحریر کیا کہ: ’’ہر وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے قبول نہیں کی وہ مسلمان نہیں۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۲، خزائن ج۱۱ ص۶۲) پر مرزاقادیانی رقمطراز ہیں کہ: ’’اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت باربار بیان کیاگیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ خدا کا مامور خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔‘‘
مولوی نور الدین قادیانی نے جو مرزاقادیانی کے خلیفہ اوّل تھے۔ اس مسئلہ کو زیادہ صاف کردیا ہے۔ وہ اخبار الحکم مجریہ ۱۷؍اگست ۱۹۰۸ء میں لکھتے ہیں کہ ؎
اسم او اسم مبارک ابن مریم می نہند
آں غلام احمد است ومیرزائے قادیاں
گر کسے آرد شکے درشان او آں کافراست
جائے اوباشد جہنم بے شک وریب وگماں
کہا جائے گا کہ مرزاقادیانی نے اس لئے مسلمانوں کو کافر بنایا کہ خود علمائے اسلام نے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا تھا۔ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں۔ مرزاقادیانی بقول خود مامور من اﷲ تھے اور نہ صرف دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے لئے خدا کا پیام لے کر آئے تھے۔ ان کے مقابلہ میں جو لوگ اٹھے وہ کسی کے نمائندہ نہ تھے۔ انہوں نے اگر مرزاقادیانی کو کافر کہا تو وہ ان کا ذاتی فعل تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہئے کہ وہ ان کا اور ان کے عقیدت مندوں کا فعل تھا۔ لہٰذا ان کی وجہ سے تمام عالم اسلام کو کافر قرار دینا کہاں کی دانشمندی تھی۔
علماء کے اعلان تکفیر کے جواب میں مرزاقادیانی زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے تھے کہ وہ مکفر علماء کا نام لے کر ان کے خلاف خود کفرکا فتویٰ لگادیتے یا تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہتے کہ میں مسلمان ہوں اور شرع مطہرہ کی رو سے مسلمان کو کافر کہنا کفر ہے اور بس۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور پنجاب یا ہندوستان تک جو بحث محدود تھی اس کی وجہ سے چین اور امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی کافر قرار دیا۔
مرزاقادیانی کے فتویٰ تکفیر میں بھی تضاد ہے جو حوالہ جات میں نے اوپر نقل کئے ان میں مرزاقادیانی نے منکروں کو جہنمی قرار دیا ہے۔ لیکن اپنی کتاب (توضیح المرام ص۱۷،۱۹، خزائن ج۳ ص۶۰) پر ایک طویل تحریر کے ضمن میں مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ: ’’جزوی نبی بھی انبیاء کی طرح مامور ہوکر آتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بہ آواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹھہرتا ہے۔‘‘