یہ علاقے تمہارے تھے۔ آج دشمن کے قبضہ میں ہیں۔ اس سے ان کے سمندر غیرت پر تازیانہ لگتا رہا۔ آخر بیس سال کے بعد فرانس کے سپوتوں نے وہ علاقے جرمنی سے واپس لے لئے۔
یہ واقعہ بتاتا ہے کہ زندہ قومیں کمزور ہو جاتی ہیں تو نقصان ضرور اٹھاتی ہیں۔ لیکن اس نقصان کے احساس کو مٹنے نہیں دیتیں اور یوں ایک روز اپنی عظمت گذشتہ کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ مرزاقادیانی نے تنسیخ جہاد کا اعلان کر کے مسلمانوں کی خود داری کو برباد کرنے کی کوشش کی۔ ان کی روایات کو تباہ کرنے کی سعی کی اور ان کی ہمیت کی رب جان تک کومسل دیا۔ لہٰذا انہوں نے تنسیخ جہاد کا اعلان کر کے ملت مرحومہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
دوم… مرزاقادیانی نے حیات وممات مسیح کے ایسے فروعی مسائل کی بحث کو زندہ کیا اور ان کو خاص اہمیت دی۔ جس کی وجہ سے مسلمان ام الکتاب کو چھوڑ کر متشابہات کی بھول بھلیاں میں پڑ گئے اور ان میں انتشار پیدا ہوا۔ میں اس موضوع پر کافی بحث کرچکا ہوں۔ لہٰذا اس وقت اس پر زیادہ اظہار خیال نہیں کروںگا۔
سوم… مرزاقادیانی نے اہل قبلہ کی تکفیر کی اور یوں ملت مرحومہ میں بے حد اختلاف وانتشار پیدا کیا۔ جس سے مسلمانوں کو شدید صدمہ اور بدترین نقصان پہنچا۔ یہ موضوع ذرا تفصیلی اور واضح بحث کا طالب ہے۔ لہٰذا میں اس پر قدرے تفصیل کے ساتھ اظہار خیالات کرنا چاہتا ہوں۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان بلاوجہ کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے تو وہ خود کافر ہوجاتا ہے۔ یہ بات اسلام سے مخصوص نہیں۔ بلکہ جملہ مذاہب عالم کا قانون یہی ہے۔ کافر کیا ہے، خدا کا مجرم۔ لہٰذا کسی بے گناہ کو مجرم قرار دینا جرم قرار دیا گیا ہے۔ آئین دنیا میں بھی یہی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر زنا یا چوری یا کسی اور قسم کے جرم کے ارتکاب کا جھوٹا الزام لگائے تو وہ خود مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔
مرزاقادیانی نے نہ صرف اپنے مخالفین کو بلکہ تمام عالم اسلام کو کافر قرار دیا۔ چنانچہ غیر قادیانی مسلمانوں کے متعلق برادران قادیان کے عقیدہ کو بیان فرماتے ہوئے مولانا محمد علی صاحب ایم۔اے امیر جماعت احمدیہ لاہور اپنی کتاب (تحریک احمدیت ص۲۹) پر لکھتے ہیں کہ فریق قادیان کا ’’عقیدہ یہ رہا کہ جن لوگوں نے حضرت مرزاصاحب کی بیعت نہیں کی خواہ وہ انہیں مسلمان ہی نہیں مجدد اور مسیح موعود بھی مانتے ہوں اور خواہ وہ ان کے نام سے بھی بے خبر ہوں وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
خود مرزاقادیانی اپنی کتاب (معیار الاخیار ص۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مجھے الہام ہوا جو شخص تیری