اوّل… اٹلی کے قائداعظم مسولینی نے پچھلے دنوں اپنی حکومت کی پالیسی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ہم چاہتے ہیں کہ امن عالم کی حیات کا رشتہ زیادہ سے زیادہ طول پذیر ہو۔ لیکن ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ دنیا سے جنگ مٹ سکتی ہے۔ اس لئے کہ دوامی امن موت کا مرادف ہے۔‘‘
ناظرین کرام! آخری فقرہ پر غور کریں: ’’داومی امن موت کا مرادف ہے۔‘‘ یعنی وہی قوم دوامی امن کی طالب ہوسکتی ہے جو تقریباً مرچکی ہو۔ مسولینی نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ اس مقصد کو خداوند تعالیٰ نے قرآن الحکیم میں یوں بیان فرمایا کہ مسلمانوں کو قیام امن کی تلقین کرنے کے باوجود اور یہ حکم دینے کے باوصف کہ اصلاح کے بعد ملک میں فساد پیدا نہ کرو۔ یہ بھی حکم دیا کہ وہ سامان حرب وضرب سے ہمیشہ لیس رہیں۔ تاکہ دشمن ان میں رعب محسوس کریں اور ان کو عواقب جنگ سے بے خبر سمجھ کر ان پر حملہ نہ کردیں۔ اس دنیا میں زندگی اور عزت کی زندگی وہی گذار سکتا ہے جس کو اس کے گردوپیش کے رہنے والے لقمۂ تر نہ سمجھ سکیں۔ یہی حال قوموں کا ہے۔ دنیا میں امن کی حامی سب سے زیادہ وہی اقوام نظر آتی ہیں جن کی جنگی تیاریوں کے باعث ایک عالم ان کا حلقہ بگوش بن چکا ہے۔ انہی حالات وحقائق سے آگاہ خدائے بزرگ وبرتر نے مسلمانوں کو مضبوط وتوانا بن کر آمادۂ کار رہنے کا مشورہ دیا۔ لیکن اگر جہاد ہی بقول مرزاقادیانی اﷲتعالیٰ نے منسوخ فرمادیا ہے تو پھر تیار برتیار رہنے کی آیات کی ضرورت کیا باقی رہی؟ کچھ بھی نہیں۔
دنیا کی دول عظمیٰ روز اسلحہ کی تخفیف کے راگ الاپتی ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اپنی جنگی قوتوں کو برابر بڑھا رہی ہیں۔ ان حالات میں ایک قوم جس کو خدا کے نام پر کمزور بن جانے، غیر مسلح ہو جانے اور جنگ کو حرام سمجھنے کی تلقین کی گئی ہے وہ مسلمان ہیں۔
واضح رہے کہ مرزاقادیانی کا ادعائے نبوت مقامی نہ تھا۔ یعنی وہ محض مسلمانان ہندوستان کے لئے مبعوث ہونے کے مدعی نہ تھے۔ بلکہ ان کا تقرر عالمگیر تھا۔ لہٰذا ان کا الہام تنسیخ جہاد ترکی، ایران، مصر، حجاز، نجد، افغانستان، یمن وغیرہ کے لئے یکساں نازل ہوا۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ اگر آج مرزاقادیانی پر ایمان لاکر ترکی، ایران اور افغانستان وغیرہم ایسے اسلامی ممالک جہاد کو منسوخ سمجھ کر نہتے ہوبیٹھیں تو ان کا کیا حشر ہو۔
فرانس سے جرمنی نے ایک مرتبہ جنگ کر کے الساس اور لورین کے علاقے چھین لئے تھے۔ فرانس کے بچوں کو بیس سال تک نقشوں پر جداگانہ رنگ لگا کر یہ تعلیم دی جاتی رہی کہ یہ