سے بڑا سہارا ہے اور مسلمان دلیل کے مقابلہ میں تلوار کو کبھی اٹھا سکتا ہی نہیں۔
اسلام خون ریزی کو اس قدر معیوب بتاتا ہے کہ اس نے ایک انسان کے قتل کو جمیع نوع بشر کے قتل کے برابر ٹھہرایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود فتنہ کو قتل سے بھی بدتر ظاہر کیا ہے۔ ان حالات میں تنسیخ جہاد کے لئے کسی نبی کی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی۔
اور اگر خدانخواستہ اس کی ضرورت تھی تو معاذ اﷲ کیا خداوند تعالیٰ کو یاد نہیں رہا تھا کہ ہجرت اور ترک تعاون جہاد کے دو لازمی جزو ہیں؟ اگر یاد تھا تو کیوں مرزاقادیانی کی وساطت سے ہجرت کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا اور نہ عدم تعاون کے متعلق ہی کوئی حکم آیا۔
ایک اور اصولی بات ہے جو قابل غور ہے۔ انسان کے ساختہ پر داختہ اور خدا کے فرستادہ قانون میں فرق یہ ہے کہ ایک بدلتا ہے اور دوسرا نہیں بدلتا۔ انسان آج ایک قانون بناتا ہے۔ کل اس کی تصحیح کے پرچے جاری کرتا ہے۔ کہیں اضافہ کا اعلان کرتا ہے۔ کہیں تنسیخ کا اور پھر اس قانون کو دوبارہ شائع کرتا ہے تو وہ بعض اوقات اس قدر متغیر ہوچکا ہوتا ہے کہ اصل سے اس کا لگاؤ نام ہی کا رہ جاتا ہے۔ اﷲتعالیٰ نے صحائف میں ردوبدل یوں نہیں کیا کہ ایک کتاب کے بعض حصص کی تنسیخ یا ترمیم کے لئے نبی مبعوث کیا ہو۔ بلکہ جب ضرورت محسوس ہوئی نئی کتاب نازل فرمائی۔ کیا برادران قادیان ہمیں بتاسکتے ہیں کہ کوئی ایسا نبی آیا ہو جس نے کسی موجود الوقت صحیفہ آسمانی کی ضمنی ترمیم کا محض زبانی اعلان کیا ہو۔
یہ اصول مسلمہ ہے کہ قرآن پاک کے بعد کسی صحیفہ آسمانی کے نزول کا امکان باقی نہیں رہا۔ ان حالات میں اگر یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ مختلف اوقات میں نبی مبعوث ہوا کریںگے۔ وہ ظلی نبی ہوںگے اور قرآن پاک کے بعض احکام کی تنسیخ یا ترمیم کے پیام لایا کریںگے تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک روز قرآن مجید کے بعض جزو بالکل تبدیل ہو جائیںگے اور اگر ایسا ہو تو اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید کے بجنسہ محفوظ رکھنے کا جو وعدہ کیا ہے اس کا (معاذ اﷲ) کیا حشر ہوگا؟
پھر تنسیخ آیات جہاد سے مرزاقادیانی کی مراد کیا تھی؟ یہ کہ اﷲتعالیٰ ان احکام کو واپس لیتا ہے یا ایک عرصہ کے لئے معطل فرماتا ہے۔ اگر یہ معطل ہوئے تو ان کے احیاء کی ترکیب کیا ہوگی۔ کیا نیا نبی مبعوث ہوگا۔ جو اعلان کرے گا کہ آیات جہاد پھر نافذ ہوتی ہیں؟ اور اگر یہ دوامی طور پر منسوخ ہو چکیں تو کل حالات زمانہ بدلنے پر مسلمان کیونکر جہاد کرسکیںگے یا کیا مرزاقادیانی کا خیال یہ تھا کہ دنیائے جنگ پر ور میں مسلمان اور صرف مسلمان جنگ کی ضرورت سے مستغنی ہے۔ اگر ان کا خیال فی الحقیقت یہی تھا تو ان کی سیاسی دوراندیشی کا فقدان قابل رحم ہے۔