انسان دنیا میں دو سوکروڑ کے قریب آباد ہیں۔ ایک انسان کی عقل نوع انسانی کے مقابلہ میں ۲۰۰۰۰۰۰۰/۱ ہوئی اور اگر ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک کی کل انسانی آبادی سے ہر انسان اپنے دماغ کو نسبت دے تو اسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ کس قدر معمولی عقل کا مالک ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ عالم وجاہل میں فرق صرف یہ ہے کہ عالم اپنی جہالت کی وسعت سے آگاہ ہوتا ہے اور جاہل اس سے واقف نہیں ہوتا۔
مثلاً میں جانتا ہوں کہ دنیا میں ہزارہا زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔ میں صرف سات یا آٹھ زبانوں میں گفتگو کرسکتا ہوں اور وہ بھی نامکمل۔ اس سے مجھے علم ہے کہ السنۂ عالم کے لحاظ سے میری جہالت کی وسعت کیا ہے۔ لیکن جو بدبخت یہ سمجھتا ہے کہ اردو کے سوا دنیا میں کوئی زبان ہی نہیں اسے اپنی جہالت کی وسعت کا علم کیسے ہوسکتا ہے۔
پس جو لوگ یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ دوسوکروڑ انسانوں میں سے ایک فرد کی عقل کے مالک ہیں اور عقل کل کروڑوں سے زیادہ انسان پیدا کر چکی ہے اور کہ وحوش وطیور بھی دماغ اور شعور رکھتے ہیں۔ وہ ہر بات میں مین میکھ نکالتے ہیں۔ اگر وہ ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد عقل کل سے اپنی دانست کا تناسب مقرر کریں تو شاید انہیں یہ کہنے کی جرأت نہ ہو کہ فلاں کام ناممکن ہے۔ اس لئے کہ حد عقل سے خارج ہے۔ اﷲتعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے قرآن پاک میں فرمایا ہے: ’’یہ ہر اس بات کو جو ان کے فہم میں نہیں آتی جھٹلا دیتے ہیں۔‘‘
کل تک انسان کا زمین سے بلند ہونا خارج از عقل تھا۔ آج وہ ۳۵ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتا پھرتا ہے۔ کل تک انسان کی آواز کا ایک میل کے فاصلہ تک پہنچانا خارج از امکان تھا۔ آج لندن اور دہلی میں روز باتیں ہوتی ہیں اور درمیان کے سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل اور بن کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتے۔ کل تک انسان کی حد نظر محدود تھی۔ آج جاپان میں بیٹھ کر وہ اس انسان کو دیکھا جاسکتا ہے جو امریکہ میں بیٹھا ہو اور اس پر بھی ہم انسان چھوٹا منہ بڑی بات کے مصداق بن کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں کام خدا وند تعالیٰ کے لئے ممکن نہیں ہے ؎
بریں عقل ودانش بباید گریست
خلاف فطرت کا لفظ ہم نے سن لیا ہے۔ لیکن فطرت کیا ہے؟ وہ جو ہم ہرروز مشاہدہ کرتے ہیں؟ اور بس؟ لیکن کیا ہمیں احساس ہے کہ خداوند تعالیٰ کا ایک روز ہمارے ہزار سال کے برابر ہے اور اگر اس نے فطرت یہ بنائی ہو کہ فلاں ستارہ تیس سال تک یوں چلے گا اور پھر تیس سال تک الٹا چلتا رہے گا تو یہ دور ہمارے حساب کے مطابق تیس تیس ہزار سال کے ہوئے اور تیس ہزار