کروںگا کہ یہ مسئلہ مرزاقادیانی سے پہلے بھی زیر بحث تھا اور جس طرح مسلمانوں میں متعدد اور مسائل کے متعلق بھی اختلاف رائے جس کو ضمنی وفروعی اختلاف کہنا چاہئے موجود ہے۔ اسی طرح اس مسئلہ کے متعلق بھی اختلاف رائے عرصہ سے موجود ہے۔ یہ مسئلہ اتنی بڑی اہمیت نہیں رکھتا کہ اس کے لئے نبی مبعوث ہوتا۔
مسلمانوں میں جن مسائل کے متعلق اختلاف اجہتاد ہے وہ متعد د ہیں۔ مگر میں ان کی تین مثالیں پیش کرنے پر اکتفاء کرتا ہوں۔
۱…
وضو میں پاؤں دھونا لازمی ہے یا نہیں ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔
۲…
طلاق کا لفظ ایک خفگی کی وجہ سے اگر تین بار یا اس سے زیادہ مرتبہ دہرایا جائے تو ایک طلاق ہوتی ہے یا تین ایک اہم مسئلہ ہے جو مختلف فیہ ہے۔
۳…
معراج نبوی کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ معراج روحانی ہوا اور دوسرے ہیں کہ وہ معراج جسمانی کے قائل ہیں۔
اﷲتعالیٰ نے قرآن پاک میں خود فرمایا ہے کہ مسائل قرآن دو قسم کے ہیں۔ محکمات ومتشابہات یہاں مشتابہات سے مراد شبہ پیدا کرنے والے مسائل نہیں ہیں۔ بلکہ میری دانست میں متشابہات سے مراد وہ مسائل ہیں۔ جن میں دلیل بازی کا امکان ہو اور بس۔
اﷲتعالیٰ نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ دلیل بازی کے قابل مسائل کو لے کر دین فطرت میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ بلکہ اس کو نہایت مقہور ومغضوب فعل ظاہر فرمایا۔
پس مناسب یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ معراج جسمانی ہوا ہو یا روحانی، عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہوں یا باپ سے پیدا ہوئے ہوں۔ وہ زندہ آسمان پر موجود ہوں یا فوت ہوچکے ہوں۔ ان حالات سے خدا کی قدرت کاملہ میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ مسائل جزو ایمان نہیں ہیں۔ دیانتداری سے ایک رائے قائم کر لینا کافی ہے اور بس۔
اور یہ اصول بھی مسلمہ ہے کہ فروعی اختلاف سے ایمان کو کوئی تعلق نہیں۔ حیات مسیح کا مسئلہ بھی ابتداء سے مختلف فیہ چلا آتا ہے۔ یہ بھی جزو ایمان نہیں جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا قادر مطلق ہے۔ وہ جو چاہے سو کرسکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر مسیح جن کو کروڑوں آدمی خدا کابیٹا مانتے ہیں مرگئے تو ان کی موت خداوند کریم کی لازوال قدرت کا ایک ثبوت ہے اور اگر وہ آسمان پر زندہ ہیں تو یہ بھی خدائے عزوجل کی قدرت کا ایک بدیہی نشان ہے۔