الوہیت کے بعد میں نے مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کو لیا اور ثابت کیا کہ حضور سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کے بعد کسی نبی کی ضرورت ہی نہیں۔ پھر مرزاقادیانی کے الہامات کو لیا اور ان کا پول ظاہر کر کے ثابت کیا کہ اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ ختم رسلﷺ کے بعد کوئی نبی آسکتا ہے تو بھی مرزاقادیانی نبی نہ تھے۔ اس لئے کہ ان کے الہام غلط، بے معنی اور خود ان کے فہم سے بالاتر تھے۔ اس کے بعد میں نے مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں لیں اور مرزاقادیانی کی تحریر سے یہ ثابت کرنے کے بعد کہ یہ معیار نبوت ہیں۔ میں نے بہ دلائل قاطع ثابت کردیا ہے کہ مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں سچی ثابت نہیں ہوئیں۔ لہٰذا وہ نبی نہ تھے۔
ان دو امور پر اظہار خیال کرنے کے بعد میں نے ثابت کیا ہے کہ مرزاقادیانی کے بعض افعال واقوال نبی کی شان سے گرے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ان کو نبوت کا درجہ دینا صحیح نہیں ہوسکتا۔ لیکن فرض کر لیجئے کہ (معاذ اﷲ) وہ نبی تھے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مبعوث ہوئے تو انہوں نے اسلام کے لئے کیا کیا۔
اس کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک ایسی جماعت پیدا کر گئے ہیں جو منظم ہے۔ نماز گذار ہے۔ زکوٰۃ باقاعدہ دیتی ہے اور صالح ہے تو میں عرض کروںگا کہ یہ کام اتنا بڑا نہیں۔ جس کے لئے نبی کے مبعوث ہونے کی ضرورت ہو۔ زکوٰۃ تو مسلمانان عالم میں سے سب سے زیادہ احتیاط اور باقاعدگی کے ساتھ آغا خان کے مرید دیتے ہیں۔ نماز گذار ہونے میں بوہرہ جماعت کے شیعہ شاید ہرگروہ کے مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔ منظم بھی ہیں اور جماعت احناف کے اکثر پیروں کے مریدوں میں بھی یہ خوبیاںموجود ہیں۔
رہا جماعت کا صالح ہونا اس میں مجھے ذاتی تجربہ کی بناء پر کلام ہے۔ میرے احمدی بھائیوں میں سے جو بدترین ہے۔ شاید وہ میری ذات سے بہت بہتر ہو۔ لیکن میرا تجربہ شاہد ہے کہ عام مسلمان بلکہ عام انسان جن کمزوریوں میں مبتلا ہیں ۔ احمدی بھائی ان سے بالاتر نہیں ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔ بدچلن بھی ہیں اور نیکو کار بھی۔ دیانتدار بھی ہیں بددیانت بھی۔ اس سے زیادہ مجھے نہ کچھ کہنا چاہئے اور نہ کہنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ہر شریف صوفی کر رہا ہے اور اکثر ان میں سے کامیاب ہیں اور انہیں مرزاقادیانی پر یہ تفوق حاصل ہے کہ وہ عقائد میں ترمیم کئے بغیر مسلمانوں کو صالح بنارہے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ مرزاقادیانی نے حیات مسیح کے مسئلہ کو واضح کردیا تو میں عرض