اس سلسلہ کو قلم بند کرتے ہوئے مجھے کسی موقعہ پر ایسی تکلیف نہیں ہوئی۔ جیسی کہ مرزاقادیانی کی محولہ بالا تحریروںکا نمونہ پیش کرتے ہوئے محسوس ہوئی۔ میں چاہتا ہوں کہ اس باب کو جلد سے جلد ختم کروں۔ لیکن دیانت صحیفہ نگاری مجبور کر رہی ہے کہ ایک اور بات بھی جو اس ضمن میں داخل ہے عرض کروں۔
ہرصاحب قلم کا فرض ہے کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے انتہاء کی احتیاط سے کام لے۔ اپنے خیالات کے اظہار میں انسان کی آزادی اس کا پیدائشی حق ہے۔ وہ چاہے تو اﷲتعالیٰ کے وجود باوجود سے انکار کر کے دلائل پیش کرے۔ مگر اخلاق تہذیب دیانت تحریر اور شرافت نے اس کو پابند کردیا ہے کہ یہ کسی کی تحریر میں تحریف نہ کرے اور اس کا حوالہ دیتے ہوئے اس میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔ خدائے تعالیٰ کو خود گوارا نہیں کہ اس کے نام سے کوئی ایسی کتاب (تحریر) منسوب کی جائے جو اس کی بارگاہ سے نازل نہ ہوئی ہو۔ اس کو خدائے قدوس نے افتراء علیٰ اﷲ کا نام دیا ہے اور اس کی وعید بہت سخت بیان فرمائی ہے۔
اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ انسان اگر کسی دوسرے انسان سے کوئی ایسی تحریر یا بات منسوب کرے جو اس کی نہ ہو تو یہ جائز نہ ہوگا۔ مجھے افسوس ہے کہ جناب مرزاقادیانی کی تحریر میں بعض ایسے حوالے موجود ہیں۔ جن کا وجود اس خاکسار کو نہیں ملا۔ اگر یہ میری غلطی ہے تو میں ان حوالوں کا پتہ ملنے پر ادب سے مرزاقادیانی کی روح اور ان کے پیروکار حضرات سے معافی مانگ لوںگا اور اظہار ندامت کروںگا۔
میں ایسے حوالوں میں سے صرف تین بطور نمونہ پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔
اوّل… اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) پر اور اپنی کتاب (تحفۂ بغداد ص۲۱، خزائن ج۷ ص۲۸) کے حاشیہ پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں: ’’بات یہ ہے کہ جب مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ ومخاطبہ اﷲ سے مخصوص ہیں اور قیامت تک مخصوص رہیںگے۔ لیکن جس شخص کو بکثرت اس مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف کیا جائے اور بکثرت امور غیبیہ اس پر ظاہر کئے جائیں۔ وہ نبی کہلاتا ہے۔‘‘
میں بہ ادب عرض کروںگا کہ حضرت مجدد صاحب سرہندی رحمتہ اﷲ تعالیٰ نے ایسے اشخاص کے لئے اس طرح کبھی لفظ نبی استعمال نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے لفظ محدث لکھا ہے۔ مرزاقادیانی نے خود دعویٰ کیا کہ ایسے محدث نبی ہوتے ہیں اور اس غرض سے حضرت سرہندی کی