گویا جھوٹ ہونے کی حالت میں پندرہ ہزار روپیہ مولوی ثناء اﷲ صاحب لے جائیںگے اور دربدر گدائی کرنے سے نجات ہوگی۔ بلکہ ہم اور پیش گوئیاں بھی معہ ثبوت ان کے سامنے پیش کردیںگے اور اسی وعدہ کے موافق فی پیش گوئی سوروپیہ دیتے جاویںگے۔ اس وقت لاکھ سے زیادہ میری جماعت ہے۔ پس اگر میں مولوی صاحب موصوف کے لئے ایک ایک روپیہ بھی اپنے مریدوں سے لوںگا۔ تب بھی ایک لاکھ ہو جائے گا۔ وہ سب ان کی نذر ہوگا۔ جس حالت میں وہ دوآنے کے لئے دربدر خراب ہوتے پھرتے ہیں اور خدا کا قہر نازل ہے اور مردوں کے کفن اور وعظ کے پیسوں پر گذارہ ہے۔ ایک لاکھ روپیہ حاصل ہو جانا ان کے لئے ایک بہشت ہے۔ لیکن اگر میرے اس بیان کی طرف توجہ نہ کریں اور اس تحقیق کے لئے بپابندی شرائط مذکورہ جس میں بشرط ثبوت تصدیق ورنہ تکذیب دونوں شرط ہیں۔ قادیان میں نہ آئیں تو لعنت ہے۔ اس لاف وگزاف پر جو انہوں نے موضع مد میں مباحثہ کے وقت کی اور سخت بے حیائی سے جھوٹ بولا۔ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’لا تقل ما لیس لک بہ علم‘‘ گمراہوں نے بغیر علم اور پوری تحقیق کے عام لوگوں کے سامنے تکذیب کی۔ کیا یہی ایماندرای ہے۔ وہ انسان کتوں سے بدتر ہوتا ہے جو بیوجہ بھونکتا ہے اور وہ زندگی لعنتی ہے جو بے شرمی سے گذرتی ہے۔‘‘
(اعجاز احمدی ص۲۲، خزائن ج۱۹ ص۱۳۲)
پھر یہ لکھا کہ: ’’واضح رہے کہ مولوی ثناء اﷲ کے ذریعہ سے عنقریب تین نشان میرے ظاہر ہوںگے۔ ۱… وہ قادیان میں تمام پیش گوئیوں کی پرٹال کے لئے میرے پاس ہرگز نہیں آئیںگے اور سچی پیش گوئیوں کی اپنی قلم سے تصدیق کرنا ان کے لئے موت ہوگی۔
۲… اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق کے پہلے مر جائے تو ضرور وہ پہلے مریںگے اور سب سے پہلے اس اردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلہ سے عاجز رہ کر جلد تر ان کی روسیاہی ثابت ہو جائے گی۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۳۷، خزائن ج۱۹ ص۱۴۸)
انجام اس کا یہ ہوا کہ میں نے ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء مطابق ۱۰؍شوال ۱۳۲۰ھ کو قادیان پہنچ کر مرزاقادیانی کو اطلاعی خط لکھا جو درج ذیل ہے۔ ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم! بخدمت جناب مرزاغلام احمد قادیانی رئیس قادیان، خاکسار آپ کی حسب دعوت مندرجہ اعجاز احمدی ص۱۱، ۱۳ قادیان میں اس وقت حاضر ہے۔ جناب کی دعوت قبول کرنے میں آج تک رمضان شریف مانع