میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جائے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین وآسمان مل جاویں پر اس کی باتیں نہ ٹلیںگی۔‘‘
اس روحانی حربہ کا مطلب صاف ہے کہ عیسائی مناظر (جو الوہیت مسیح کا قائل ہے) پندرہ ماہ کے عرصہ میں مرکر واصل جہنم ہوگا۔ لیکن ڈپٹی آتھم بجائے ۵؍ستمبر۱۸۹۴ء کے ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو فوت ہوئے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے ان کے مرنے پر رسالہ (انجام آتھم ص۱، خزائن ج۱۱ ص۱) لکھا۔ جس کے شروع میں لکھا ہے۔ ’’مسٹر عبداﷲ آتھم صاحب ۲۷؍جولائی ۱۸۹۶ء کو بمقام فیروزپور فوت ہوگئے۔‘‘
اس حساب سے ڈپٹی آتھم اپنی مقررہ میعاد پندرہ ماہ سے متجاوز ہوکر ایک سال پونے گیارہ ماہ تک زیادہ زندہ رہے۔ اس پر اعتراض ہوئے تو مرزاقادیانی نے اس کے جواب میں فرمایا۔ گوآتھم پندرہ ماہ میں نہیں مرا۔ لیکن مرا تو سہی۔ اس میں کیا حرج ہے۔ میعاد کو مت دیکھو کہ مرتو گیا۔ چنانچہ آپ کے اصلی الفاظ جو کتاب پر ہیں۔ وہ قابل دید ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اگر کسی کی نسبت یہ پیش گوئی ہو کہ وہ پندرہ مہینے تک مجذوم ہو جائے گا اور اس کے ناک اور تمام اعضاء گرجائیں تو کیا وہ مجاز ہوگا کہ یہ کہے کہ پیش گوئی پوری نہیں ہوئی۔ نفس واقعہ پر نظر چاہئے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۸۵، خزائن ج۲۲ ص۱۹۳ حاشیہ)
پر اس کی تائید میں دوسری جگہ لکھا ہے۔ ’’ہمارے مخالفوں کو اس میں تو شک نہیں کہ آتھم مرگیا ہے۔ جیسا کہ لیکھرام مرگیا اور جیسا کہ احمد بیگ مرگیا۔ لیکن اپنی نابینائی سے کہتے ہیں کہ آتھم میعاد کے اندر نہیں مرا۔ اے نالائق قوم جو شخص خدا کی وعید کے بموجب مرچکا اب اس کی میعاد غیر میعاد کی بحث کرنا کیا حاجت بھلا دکھاؤ کہ اب وہ کہاں اور کس شہر میں بیٹھا ہے۔‘‘
عقیدت مند دماغ جو عذر چاہیں قبول کریں اور مریدوں کے دل جہاں چاہیں سرتسلیم خم کردیں۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ آتھم بے چارہ دوامی زندگی لے کرنہیں آیا تھا۔ مرنا تو اسے تھا ہی مرزاقادیانی کی پیش گوئی تب پوری سمجھی جاتی کہ وہ مرزاقادیانی کی بتائی ہوئی میعاد کے اندر فوت ہوتا۔ یوں فوت تو مرزاقادیانی بھی ہوئے۔ لہٰذا آتھم کے بعد از میعاد مرجانے کو اپنی پیش گوئی کی صداقت کی دلیل ٹھہرانا حسن عقیدت کا حد سے متجاوز امتحان لینے کی کوشش کرنا ہے اور راقم الحروف بلاخوف لومتہ لائم اعلان کرنے پر تیار ہے کہ اس عاجز کی رائے میں مرزاقادیانی کی پیش گوئی پوری نہیں ہوئی۔