۱… آپ کتاب (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸) پر لکھتے ہیں کہ: ’’ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشین گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘
۲… (شہادت القرآن ص۷۹، خزائن ج۶ ص۳۷۵) پر فرماتے ہیں۔ ’’سو پیش گوئیاں کوئی معمولی بات نہیں۔ کوئی ایسی بات نہیں جو انسان کے اختیار میں ہو۔ بلکہ محض اﷲ جل شانہ کے اختیار میں ہیں۔ سو اگر کوئی طالب حق ہے تو ان پیش گوئیوں کے وقت کا انتظار کرے۔‘‘
ایسے مقولے متعدد پیش کئے جاسکتے ہیں۔ مگر نمونتہً یہی کافی ہیں۔ ورنہ متعدد پیش گوئیوں کو آپ نے اپنے صدق وکذب کا معیار ٹھہرایا۔ مثلاً (انجام آتھم ص۲۴۳، خزائن ج۱۱ ص۲۴۳) پر رقم فرماہیں۔ ’’ومن ایں (پیش گوئی) رابرائے صدق وکذب خود معیار می گردانم‘‘
اس کے علاوہ بعض پیش گوئیوں کے سلسلہ میں آپ نے اعلان کیا کہ اگر یہ درست ثابت نہ ہوں تو میں جھوٹا۔ مثلاً آتھم کی موت کے متعلق پیش گوئی کرتے ہوئے آپ نے ایک اشتہار انعامی چار ہزار بمرتبہ چہارم (۲۷؍اکتوبر ۱۸۹۴ئ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۶) کو شائع کیا۔ اس اشتہار کے ص۱۶ پر آپ لکھتے ہیں کہ: ’’اے خداوند اگر یہ پیش گوئیاں تیری طرف سے نہیں ہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ ہلاک کر ۔ اگر میں تیری نظر میں مردود اور ملعون اور دجال ہوں تومجھے فنا کر ڈال اور ذلتوں کے ساتھ مجھے ہلاک کر دے اور ہمیشہ کی لعنتوں کا نشانہ بنا۔‘‘
اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ یہ واضح کیا جائے کہ مرزاقادیانی پیش گوئی کو صداقت نبوت کی جانچ کے لئے معیار سمجھتے تھے اور بس۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مرزاقادیانی اس معیار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں۔ مجھے ادب سے عرض کرنے کی اجازت دی جائے کہ مرزاقادیانی اپنے اس معیار پر پورے نہیں اترے۔ میں طویل بحث کرنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا صرف چند مثالیں پیش کر کے ثابت کردوںگا کہ مرزاقادیانی کی اہم اور ایسی پیش گوئیاں جن کو انہوں نے خاص طور پر اس غرض سے منتخب کیا کہ ان کو مرزاقادیانی کے صدق وکذب کا معیار سمجھا جائے غلط اور بالکل غلط ثابت ہوئیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔
اوّل… ایک فرزند کی آمد اور موت: (۲۰فروری ۱۸۸۶ئ، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۰۰) کو مرزاقادیانی نے ایک اشتہار دیا کہ اس غرض سے انہیں ایک نشانی ملی ہے اور انہیں خداوند قدوس نے بشارت دی ہے کہ: ’’ان کے ہاں ایک فرزند ارجمند پیدا ہوگا۔ جو وجیہہ اور