کے حق میں نازل ہوئی۔
سوم… (انجام آتھم ص۷۸، خزائن ج۱۱ ص۷۸) پر الہام درج ہے۔ ’’وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین‘‘ اور سب کو معلوم ہے کہ یہ بھی قرآن کریم کی ایک مشہور آیت کریمہ ہے۔ جو سرورکائناتؐ کی شان میں نازل ہوئی تھی۔
چہارم… (اربعین نمبر۲ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۳۵۰) پر مرزاقادیانی نے دعویٰ کیا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انہیں ’’داعیا الیٰ اﷲ وسراجاً منیرا‘‘ کے خطابات دئیے۔ حالانکہ یہی خطاب قرآن پاک میں رسول اﷲﷺ کو عطاء ہوچکے تھے۔
پنجم… اسی کتاب (اربعین نمبر۳ ص۳۶، خزائن ج۱۷ ص۴۲۶) پر آپ نے ایک اور الہام کے نزول کا دعویٰ کیا ہے۔ جس کے الفاظ درج ذیل ہیں۔ ’’وما ینطق عن الہویٰ ان ھو الا وحی یوحی دنی فتدلی فکان قاب قوسین اوادنیٰ‘‘ یہ بھی قرآن شریف کی آیات بینات ہیں۔ جو پیغمبر آخر الزمان کی شان کی مظہر ہیں۔
اگر اس قسم کے الہامات کو صحیح مان لیا جائے تو یہ حسن عقیدت کی انتہاء ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوںگے کہ جس کا جی چاہے وہ قرآن شریف کی چند آیات لے کر اعلان کر دے کہ یہ اس کی شان میں بذریعہ وحی نازل ہوئی ہیں۔ لہٰذا وہ پیغمبر ہے تعجب ہے کہ ایک انسان تو اپنے دس نوکروں کو دس اسناد ایسی دے سکتا ہے جس میں حسن خدمات کا ذکر ایک دوسرے سے مختلف ہو۔ لیکن (معاذ اﷲ) خداوند علیم وحکیم یہ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے ایک نئے نبی کو سند دیتے ہوئے نئے الفاظ استعمال کر سکے۔
چودھویں دلیل
یہ ہے کہ انہوں نے الہامات کے نام سے قرآن وحدیث کی بعض آیات پر تصرف کیا اور وہ تصرف مجھ عاجز کی رائے ناقص میں صریحاً تصرف بے جا ہے۔ اب میں پیشین گوئیوں کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ چونکہ یہ بحث طویل ہے۔ لہٰذا میں ابتداء ہی میں لکھ دینا چاہتا ہوں کہ مرزاقادیانی کے ادعائے نبوت کے خلاف میری پندرھویں دلیل یہ ہے۔
پندرھویں دلیل
ان کی اکثر پیشین گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ قبل ازیں کہ میں مرزاقادیانی کی پیشین گوئیوں کی طرف رجوع کروں۔ میں ان کے چند مقولے نقل کرنا چاہتا ہوں۔ جو پیشین گوئیوں کی اہمیت سے تعلق رکھتے ہیں۔