اعلان نبوت کا جزو لاینفک ہیں۔ مثلاً الہام اور پیش گوئی اس کے علاوہ مسئلہ تکفیر اہل قبلہ اور تنسیخ جہاد کا معاملہ بھی دو ایسے کوائف ہیں۔ جن کا مرزاقادیانی کے ادعائے نبوت سے بہت بڑا تعلق ہے۔ نیز اگر کوئی شخص مدعی نبوت ہوتے ہوئے بعض ایسی باتیں لکھ جائے یا کہہ دے جو صحیح نہ ہوں تو وہ بھی اس کے ادعائے نبوت کے خلاف جاتی ہیں اور اگر مدعی نبوت کی تحریر میں ثقاہت نہ ہو تو اس سے بھی اس کے دعویٰ کی تردید لازم آتی ہے۔
جہاں تک الہامات کا تعلق ہے میں عرض کرچکا ہوں کہ مرزاقادیانی کے بعض الہامات ایسے ہیں جن کو وہ خود سمجھ نہیں سکے۔ وہ خود لکھ چکے تھے کہ الہام وہی ہے جو نبی کی زبان میں ہو تاکہ وہ اس کو سمجھ سکے۔ جو الہام سمجھ میں نہ آئے اس کے نزول سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے باوجود وہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں ایسی غیر زبانوں میں بھی الہام ہوئے جن سے وہ ناآگاہ تھے اور جن کو وہ سمجھ نہیں سکے۔ بعض الہامات اردو میں ہوئے۔ مگر وہ ایسے مبہم تھے کہ مرزاقادیانی خود تحریر چھوڑ گئے ہیں کہ وہ ان کے فہم میں نہیں آئے اور بعض الہام ایسے بھی ہوئے جو دنیا کی کسی مروجہ زبان میں نہیں ہیں اور جن کو آج تک مرزاقادیانی یا کوئی اور سمجھ نہیں سکا۔ یہ تمام بحث قسط گذشتہ میں موجود ہے۔ لہٰذا میں اس کے تکرار کی ضرورت نہیں سمجھتا۔
تیرھویں دلیل
یہ ہے کہ وہ اپنے الہام خود سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں قدرت کی طرف سے ایسا علم نہیں دیاگیا۔ جو ان کے مقصد بعثت کے لئے کافی ہوتا۔ پس وہ نبی مبعوث نہ تھے ورنہ اﷲتعالیٰ جو الہام نازل فرماتا اس کا فہم انہیں ضرور عطاء کرتا۔
نیز مرزاقادیانی کے الہامات میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان پر بعض اوقات قرآن شریف کی پوری آیات اور حدیث شریف کے پورے کے پورے فقرے بطور الہام نازل ہوئے۔ مثلاً:
اوّل… (البشریٰ ج۲ ص۶۱) پر آپ کا ایک الہام درج ہے۔ ’’انت مدینۃ العلم‘‘ یعنی اﷲتعالیٰ نے فرمایا اے مرزا تو علم کا شہر ہے۔ اب دنیا جانتی ہے کہ رسول اﷲﷺ کی حدیث پاک ہے کہ: ’’انا مدینۃ العلم وعلیٰؓ بابہا‘‘ {میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہے۔}
دوم… (البشریٰ ج۲ ص۱۰۹) پر مرزاقادیانی کا الہام درج ہے کہ: ’’انا اعطینک الکوثر‘‘ دنیا جانتی ہے کہ یہ قرآن شریف کی ایک مشہور آیت ہے جو رسول ہاشمی ونبی مطلبیﷺ