لیکن اسی پر اکتفا نہیں۔ ایسے حوالے بیسیوں دئیے جاسکتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں:
۱۳… ’’تمام انبیاء علیہم السلام کی زندگی میں ہم یہ نظارہ دیکھتے ہیں کہ نبی کو اس کے دعویٰ کے وقت تک ایک بڑا راستباز اور برگزیدہ انسان عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور کوئی شخص نہیں ہوتا کہ اس پر کچھ بھی عیب لگاسکے۔ لیکن دعویٰ کے بعد اس قدر الزام نبی پر لگاتے جاتے ہیں کہ ان کی کوئی حد نہیں رہتی۔ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے فقدلبثت فیکم عمراً من قبلہ افلاتعقلون پس جس طرح قرآن شریف نے کفار کو ملزم کہا۔ اسی طرح آج وہ لوگ بھی ملزم ٹھہرتے ہیں جو جانتے ہیں اور اگر جانتے نہیں تو تحقیق کرسکتے ہیں کہ حضرت مرزا قادیانی کی زندگی قبل از دعویٰ مسیحیت ایک بالکل بے لوث اور اعلیٰ درجہ کے راستباز کی زندگی تھی اور عجیب تر یہ کہ آپ کے الہامات میں بعینہ وہی عبارت پائی جاتی ہے جو وحی قرآنی میں آنحضرتﷺ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ چنانچہ الہام کے یہ لفظ ہیں: ولقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلاتعقلون۔ اب کوئی خدارا غور کریں کہ حضرت مرزا قادیانی کی زندگی قبل از دعویٰ مسیحیت بعینہ اسی قسم کی بے لوث زندگی ہے یا نہیں۔ جیسے انبیاء کی ہوتی ہے۔‘‘ (ریویو ج۵ش۵ص۲۳۱،مئی۱۹۰۶ئ)
۱۴… ’’افسوس مسلمانوں پر جو حضرت مرزا قادیانی کی مخالفت میں اندھے ہوکر انہی اعتراضوں کو دہرا رہے ہیں۔ جو عیسائی آنحضرتﷺ پر کرتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح جس طرح عیسائی آنحضرتﷺ کی مخالفت میں اندھے ہوکر ان اعتراضوں کو مضبوط کررہے ہیں۔ اور دہرارہے ہیں۔ جو یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کرتے تھے۔ سچے نبی کا یہی ایک بڑا بھاری نشان ہے کہ جو اعتراض اس پر کیاجائے گا وہ سارے نبیوں میں پڑے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص ایسے مامور من اﷲ کو رد کرتا ہے وہ گویا کلی سلسلہ نبوت کو ردکرتا ہے۔‘‘
(ریویو ج۵ش۸ص۳۱۸،اگست۱۹۰۶ئ)
۱۵… ’’یا آخری زمانہ میں ایک اوتار کے ظہور کے متعلق جو وعدہ انہیں دیاگیا۔ وہ خدا کی طرف سے تھا اور ان کو ہندوستان کے مقدس نبی میرزا غلام احمد قادیانی کے وجود میں پورا کردکھایا۔‘‘ (ریویو ج۳ش۱ص۱۱،جنوری۱۹۰۴ئ)
۱۶… ’’حضرت مسیح کے وقت کے یہودی اور ہمارے نبیﷺ کے وقت کے یہودی اور عیسائی بھی تو اپنے آپ کو ایماندار ہی ظاہر کرتے تھے۔ لیکن ان لوگوں کا ایمان اس زمانہ کی طرح مردہ ہوچکا تھا۔ ایسے وقتوں میں اﷲ تعالیٰ اور نبی بھیج کر از سر نو آسمانی نشان دکھاتا رہا۔ اور