انہی دو بعثتوں کی طرف اشارہ ہے۔‘‘ (ریویو ج۸ص۱۷۴ش۵ص۱۷۴،مئی۱۹۰۹ئ)
۸… ’’جب ہم کسی شخص کو مدعی نبوت کہیں گے تو اس سے مراد یہ ہوگی کہ وہ صرف نبوت کا مدعی ہے یا بالفاظ دیگر کامل نبوت کا مدعی ہے۔‘‘ (النبوۃ فی الاسلام ص۲۳۰)
۹… ’’قرآن شریف نے جو امتیازی نشان سچے اور جھوٹے کے درمیان قائم کیا ہے اس کی رو سے حضرت مرزا قادیانی کے دعویٰ کو پرکھو۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ اعتراض کرتے وقت تو عیسائی اور اس سلسلہ کے مخالف بڑی بڑی باریکیاں نکالتے ہیں۔ مگر اس موٹی بات کو نہیں سمجھتے کہ ایک مدعی نبوت میں کسی امتیازی نشان کا پایا جانا ضروری ہے۔‘‘
(ریویو ج۴ش۱۱ص۴۶۴،نومبر۱۹۰۵ئ)
۱۰… ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کی صداقت کو پرکھنے کے لئے منہاج نبوت پر اگر کوئی شخص چلے تو ایک لمحہ کے لئے بھی اس کے دل میں کوئی شبہ نہیں رہ سکتا۔ گزشتہ مذہبی تاریخ پر نظر ڈال کر غور کرو کہ جن لوگوں نے کسی مدعی نبوت کو قبول کیا اور جنہوں نے انکار کیا ان کا انکار کس بناء پر تھا۔‘‘ (ریویو ج۶ش۷ص۲۷۴،جولائی۱۹۰۷ئ)
۱۱… ’’ہرایک نبی نے جو خدا کی طرف سے آیا ہے دو باتوں پر زور دیا ہے۔ اول یہ کہ لوگ خدا پر ایمان لائیں۔ اور دوسرا یہ کہ اس کی نبوت کو اور اس کے منجانب اﷲ ہونے کو تسلیم کریں۔ ان میں اول الذکر امر تو اس کے مشن کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ اور ثانی الذکر کا تسلیم کرنا اس واسطے ضروری ہوتا ہے۔ کہ وہ اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا پر زندہ ایمان بغیر نبی کے ماننے کے پیدا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح آج نادان معترض اعتراض کررہے ہیں کہ حضرت مرزا قادیانی اپنے آپ کو نعوذباﷲ خدا کے برابر ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں نے بھی ہمارے نبیﷺ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آپؐ نے اپنے آپ کو نعوذباﷲ خدا کے برابر بنانا چاہا۔ بعینہ اسی قدیم سنت الٰہی کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے حضرت مرزا قادیانی کو بھی مبعوث فرمایا ہے۔‘‘
(ریویو ج۴ص۴۶۶ش۱۲،دسمبر۱۹۰۵ئ)
۱۲… ’’باقی رہا یہ امر کہ اس دعویٰ میں کہاں تک یہ سلسلہ سچا ہے۔ سو اس کو اسی طریق پر پرکھو۔ جس طریق پر انبیاء سابقین کے نشانات کو پرکھتے ہیں اور کوئی ایسا مطالبہ نہ کرو جو پہلے انبیاء علیہ السلام سے کفار نے کیا ہے۔ پہلے انبیاء سے خدا کی کیا سنت رہی۔ اب بھی وہ اسی سنت کے مطابق کام کررہا ہے یا نہیں۔‘‘ (ریویو ج۴ش۱۲ص۴۶۹،دسمبر۱۹۰۵ئ)