۸… ’’بہرحال مسیح علیہ السلام کی یہ تربی کاروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے تھیں۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں۔ اگر عاجز اسی عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل وتوفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان اعجوبہ نمائیوں میں حضرت مسیح ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۰، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
۹… ’’یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل کے ذریعے سے اچھا کرتے تھے۔ مگر ہدایت توحید اور دینی استقامتوں کی کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارہ میں ان کی کاروائیوں کا نمبر ایسا کم درجے کا رہا کہ قریب قریب ناکام کے رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۰، خزائن ج۳ ص۲۵۸)
۱۰… ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود پزیر ہوا تھا۔ مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقعہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سرپر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے سر پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
مندرجہ بالا اقوال جو مرزاقادیانی کی معتبر کتابوں میں سے درج کئے گئے ہیں۔ صاف اور واضح الفاظ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین اور منقصت بلکہ بعض بازاری گالی گلوچ پر مشتمل ہیں۔ اسلام کی مقدس تعلیم اور دانش وحکمت سے لبریز تفہیم نے تمام انبیاء علیہم السلام کی تعظیم وتوقیر کو نہ صرف ضروری تسلیم کیا بلکہ جزو ایمان قرار دیا ہے۔ عقیدہ اسلامی کی رو سے کوئی مسلمان ہرگز مسلمان نہیں رہ سکتا۔ جب تک تمام انبیاء علیہم السلام کی تصدیق صدق دل سے نہ کرے۔ ان کے تقدس اور ان کی عفت عصمت کو لوح دل پر نقش ثابت نہ کرے۔ مگر مرزاقادیانی نے باوجود ادعائے مہدویت ومجددیت، مسیحیت ونبوت ورسالت کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبر کی شان میں جن مغلظات والزامات کو استعمال کیا ہے۔ ان پر شرافت اور انسانیت لرزہ براندام ہے۔