اسلام کے اس عقیدہ نے مسیحیت پر فتح پائی۔ مگر مرزاقادیانی پھر مسیحی عقیدہ کی طرف لوٹ گئے۔ خود از بس اندوہناک ہے۔ کہا جائے گا کہ مرزاقادیانی کو خدا کے فرزند ہونے کا جو دعویٰ ہے وہ معنوی ہے۔ نہ کہ جسمانی، اگر بالفرض اس توضیح کو صحیح بھی تسلیم کرلیاجائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی یہ نہیں کہتے کہ خدانخواستہ حضرت مریم اور خداوند تعالیٰ میں جسمانی لحاظ سے زن وشوہر کے تعلقات تھے۔ جس سے حضرت مسیح پیدا ہوئے اور اگر عیسائیوں کے اس دعویٰ کو خداوند اسلام نے گوارا نہیں کیا کہ معنوی لحاظ سے عیسیٰ خدا کے بیٹے تھے تو مرزاقادیانی کے مقابلہ میں کیوں اس کلیہ سے ایک استثنیٰ کو جائز رکھے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے عیسائیوں سے آگے بڑھ کر قدم رکھا ہے۔ چنانچہ جناب مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’بابو الٰہی بخش چاہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے۔ مگر خدائے تعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھادے گا۔ جو متواتر ہوںگے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہوگیا جو بمنزلہ اطفال اﷲ ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴۳، خزائن ج۲۲ ص۵۸۱)
پھر فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے مرزاقادیانی سے فرمایا: ’’انت من ماء نا وہم من فشل‘‘ اے مرزاتو ہمارے پانی سے ہے اور دوسرے لوگ خشکی سے ہیں۔
(اربعین ج۳ ص۳۴، خزائن ج۱۱ ص۴۲۳)
قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ باقی لوگ خشکی سے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ البتہ اگر یہاں ’’مائ‘‘ کے معنی نطفہ کر لئے جائیں تو لغواً صحیح ہوگا۔ مگر بات بدل جائے گی۔
اور ماء سے مراد نطفہ لینا خارج از جواز نہیں۔ اس لئے کہ مرزاقادیانی کے مرید خاص قاضی یار محمد صاحب نے اپنے ٹریکٹ موسوم بہ ’’اسلامی قربانی‘‘ میں ایک ایسا فقرہ لکھا ہے جس میں خدائے تعالیٰ کی (معاذ اﷲ) قوت رجولیت کا ذکر بھی موجود ہے۔ اب غور کیجئے جب رجولیت کا ذکربھی موجود ہو۔ عورت بننے کا دعویٰ بھی موجود ہو۔ نطفہ کا قصہ بھی موجود ہو تو اس مضمون پر ٹھنڈے دل یا تہذیب سے بحث کیسے اور کیونکر کی جاسکتی ہے؟ لیکن اس پر بھی اکتفاء نہیں۔ مرزاقادیانی (کشتی نوح ص۴۷، خزائن ج۱۹ ص۵۰) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور کئی ماہ بعد جو دس ماہ سے زیادہ نہیں۔ بذریعہ الہام مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔‘‘