نزلنا علیٰ عبدنا فأتوا بسورۃ من مثلہ وادعو شہداء کم من دون اﷲ ان کنتم صادقین‘‘
یعنی خداوند کریم، محمد رسول اﷲﷺ پر جو قرآن نازل کر رہے ہیں۔ اس کے بارے میں تم کو کچھ شک ہو تو اگر تم سے ہوسکے تو اس کی ایسی ایک ہی سورۃ تیار کر لاؤ اور اﷲتعالیٰ کے سوا جس کو چاہو اپنی امداد کے لئے بلالو۔
غور کیجئے! ساڑھے تیرہ سو سال میں اس دنیا میں کتنے آدمی آئے اور چلے گئے۔ ہر لمحہ کی آبادی کئی سو کروڑ کی ہے۔ یہ صرف انسانوں کی تعداد ہے۔ غیر انسان مخلوق اس کے علاوہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد سے چند آیتیں قرآن پاک کے مقابلہ میں تیار نہ ہوسکیں۔ یہ قرآن پاک کی صرف زبان کا اعجاز ہے۔ دوسری خوبیوں کا توذکر ہی کیا۔
پس جس مسلمان کی نگاہوں میں قرآن پاک کی یہ خوبی کھب چکی ہو وہ کسی مدعی الہام کی تائید نہیں کرسکتا۔ جب تک کہ وہ مدعی الہام ایسا بیان اور ایسی زبان نہ لائے جس کا دنیا میں جواب نہ ہو۔
مرزاقادیانی کی تحریروں کو میں نے بغور پڑھا ہے۔ میں اس کتاب میں بارہا اپنی علمی فرومائیگی کا اعتراف کرچکا ہوں اور پھر اس کا اقرار کرتا ہوں۔ لیکن مجھ ایسا ہیچمداں بھی یہ دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے کہ مرزاقادیانی کی تحریر مبتذل اور پیش پا افتادہ اغلاط سے پر ہے۔ ان کی تحریروں میں عربی اور فارسی اور اردو کو استعمال کیاگیا ہے جو لوگ عربی سے آگاہ ہیں اور میں یہاں دم مارنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ وہ ان کی عربی میں فاش غلطیاں دکھاسکتے ہیں۔ فارسی کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن میں اردو کے متعلق وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سہوکتابت وغیرہ کے لئے ہر ممکن موقعہ دینے کے بعد بھی ان کی تحریر کو نہایت معمولی اغلاط سے مملو پاتا ہوں اور من حیث الکل بھی ان کی تحریر نہ معجز نما ہے اور نہ پرزور، مثلاً ان کی کتاب (تریاق القلوب ص۳۳، خزائن ج۱۵ ص۱۹۷) میں انہوں نے اپنی قلم کے الفاظ استعمال کر کے تذکیر تانیث کی ایک نہایت ہی پیش پا افتادہ غلطی کی ہے۔ (حقیقت الوحی ص۲۵۵، خزائن ج۲۲ ص۲۶۷) پر سرخی کی قلم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور ایک اور موقعہ پر ہوش آئی ہے کے الفاظ لکھ کر آپ نے اپنی ادبی کمزوری کا بدترین نمونہ پیش کیا ہے۔
میں ہر بات مختصر طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ لہٰذا عبارت کے طویل نمونے نے مبتذل