پس مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت، مجددیت، مسیحیت ومہدویت میں کوئی نئی بات نہیں۔ البتہ کرشن کا اوتار بن کر ایک بت پرست (کرشن) کو پیغمبر بنادینا ضرور ایک نرالی بات ہے اور ان کی یہ جدت طرازی ان کے لئے ایک شان امتیاز پیدا کرتی ہے اور بس۔
بعثت سرور کونین وصاحب قبلتین ﷺ کے وقت سے لے کر اب تک جن لوگوں نے مہدویت کے دعاوی پیش کئے یا نبوت کے منصب پر قبضہ ثابت کرنے کی سعی کی۔ ان میں سے بعض نہایت کامیاب مدعیان نبوت کا حال بطور مثال سن لیجئے۔ تاکہ آپ کو معلوم ہوکہ مرزاقادیانی کی ظاہری کامیابی مقابلتہً کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ وھوہذا!
ابن تومرت
فتوحات اسلامیہ میں بحوالہ تاریخ کامل وغیرہ لکھا ہے کہ پانچویں صدی کے شروع میں ’’محمد بن تومرت‘‘ ساکن جبل سوس نے دعویٰ کیا کہ میں سادات حسینی میں سے ہوں۔ مہدی موعود ہوں۔ اس کے حالات میں مذکور ہے کہ اس نے امام غزالیؒ وغیرہ اکابر علماء سے تحصیل علوم کے بعدرمل ونجوم میں بھی مہارت بہم پہنچائی اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا علم وفضل اور زہد وتقویٰ دیکھ کر اور اس کی جادو بھری تقریریں سن کر لاکھوں آدمی اس کے شاگرد ومرید بن گئے اور ایک لشکر لڑنے مرنے والا تیار ہوگیا۔ بادشاہ وقت کو بھی اس نے شکست دی۔ جس کی اس نے پہلے سے پیش گوئی کردی تھی۔
مناسبت معنوی وطبعی کے لحاظ سے عبداﷲ ونشریسی اور عبدالمؤمن وغیرہ اس کے معتمد علیہ قرار پائے۔ عبداﷲ ایک بڑا فاضل شخص تھا۔ اس کے علوم فنون کو ابن تومرت نے کچھ عرصہ تک ظاہر نہیں کیا۔ بلکہ اس کو ایک مجذوب کی مانند نہایت میلے اور گندے حال میں گونگا بنائے رکھا۔ جب لوگوں میں اس مدعی مہدویت کا خوب چرچا ہوگیا تو اپنی پہلے سے سوچی ہوئی چال چلا۔ یعنی فاضل عبداﷲ ونشریسی سے کہا کہ اب اپنا کمال علم وفضل ظاہر کرو۔ چنانچہ اس کی بتائی ہوئی تدبیر کے موافق ایک دن صبح کے وقت عبداﷲ نہایت مکلف لباس پہنے اور خوشبوئیں لگائے مسجد کے محراب میں دیکھا گیا۔ لوگوں کے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ فرشتہ نے آسمان سے آکر میرا سینہ شق کیا اور دھوکر قرآن اور مؤطا وغیرہ کتب آسمانی واحادیث وعلوم سے بھردیا۔ مکار مہدی موعود اس بات کو سن کر رونے لگا کہ میری جماعت میں اﷲتعالیٰ نے ایسے آدمی بھی پیداکئے ہیں جن پر حضرت محمد مصطفیﷺ کی طرح فرشتے اترتے ہیں اور جس طرح آنحضرتﷺ کا سینہ شق کیاگیا تھا اسی طرح اس عاجز کی جماعت کے ایک شخص کا سینہ فرشتوں نے شق کر کے قرآن وحدیث اور علوم لدنیہ