۱…
کلمہ محمد مصطفیٰﷺ منسوخ ہوچکا اور اب یہ لوگ جو کلمہ پڑھتے ہیں وہ یوں ہے۔ ’’لا الہ الا اﷲ محمد مہدی رسول اﷲ‘‘
۲…
ان کی دانست میں نماز موقوف ہوچکی ہے۔ یہ لوگ حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک شخص بلند آواز سے ذکر شروع کرتا ہے اور باقی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔
۳…
ان کی رائے میں مہدی آچکے۔
غرض ان کے معتقدات عجیب وغریب ہیں۔
جن مہدی حضرات یا ان کے پیروؤں کا پتہ چلتا ہے وہ کامیاب مہدی ہیں۔ ناکام مہدیوں کی تعداد کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ مثلاً ضلع گجرات میں ایک گروہ ہے جو ماں کے ساتھ بیٹے، بہن کے ساتھ بھائی اور بیٹی کے ساتھ والد کے تعلقات کی حرمت کا قائل ہی نہیں۔ ان کے مہدی کا حکم ہی یہ ہے کہ اپنی بیوی کو ماں یا بہن کہہ کر پکارو۔
غرض اگر آپ تلاش کریںگے تو آپ کو ہرگلی میں کوئی نہ کوئی ایسا صاحب عزم مل جائے گا جو ملہم من اﷲ ہونے کا دعویدار ہوگا۔ اکثر صاحب قلم کامیاب ہوتے ہی پیری کا اور اس کے بعد ملہم ہونے کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں۔ کلکتہ کے ایک بہت بڑے عالم دین اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے اور اگرچہ وہ دعویٰ مہدویت سے باز آگئے۔ تاہم اب تک ان کی تحریر کا رنگ وہی ہے جو کسی ایسے ہی شخص کا ہوسکتا ہے۔ جس کو یقین ہوکہ وہ جوکچھ بھی لکھ رہا ہے۔ کسی قوت فوق العادۃ کے اشارے حکم یا تائید سے لکھ رہا ہے۔
القصہ اسلام کی گذشتہ ساڑھے تیرہ سو سال کی زندگی میں جس قدر مدعی نبوت یا مہدویت یا مسیحیت پیدا ہوئے۔ ان سب میں سے مرزاقادیانی بھی ایک ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ قلت مطالعہ یا عدم واقفیت اس تأثر کا سبب ہے۔ مدعیان نبوت میں سے مرزاقادیانی کامیاب بھی شمار نہیں ہوسکتے۔ ان کو جو کچھ کامیابی حاصل ہوئی اس کی وجہ ایک اور صرف ایک ہی ہے۔ یعنی یہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ جہاں بے کار علماء کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے ان کی مخالفت کو اپنا پیشہ بنالیا اور یوں ان کا پروپیگنڈا بڑھ گیا۔ جن علمائے کرام نے دلیل سے اور اظہار حق کے لئے ان کی مناسب مخالفت کی میں ان کی عزت کرتا ہوں اور ان کے حق میں میرے منہ سے دعائے خیر نکلتی ہے۔ مگر ایسے بزرگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔