کہ اس پر ایمان لائیں کہ اگر محمدﷺ نہ ہوتے میں آدم کو نہ پیدا کرتا۔ نہ جنت ودوزخ بناتا۔ جب میں نے عرش کو پانی پر بنایا اسے جنبش تھی میں نے اس پر ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ لکھ دیا ٹھہر گیا۔ امام قسطلانی مواہب لدنیہ اور منح محمدیہ میں رسالہ میلاد اور امام علامہ ابن طغربک سے ناقل ہیں کہ روایت ہے آدم علیہ السلام نے عرض کی الٰہی تو نے میری کنیت ابومحمد کس لئے رکھی۔ حکم ہوا اے آدم اپنا سر اٹھا۔ آدم علیہ السلام نے سر اٹھایا۔ سر پر دۂ عرش میں محمدﷺ کا نور نظر آیا۔ عرض کی الٰہی یہ نور کیسا ہے۔ فرمایا ’’ہذا نور نبی من ذریتک اسمہ فی السماء احمد وفی الارض محمد لولاہ ماخلقتک ولا خلقت سماء ولا ارضا‘‘ یہ نور پاک ایک نبی کا ہے۔ تیری ذریت یعنی اولاد سے اس کا نام آسمان میں احمد اور زمین میں محمد۔ اگر وہ نہ ہوتا میں تجھے نہ بناتا نہ آسمان وزمین کو پیدا کرتا اور اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جو بخوف طوالت نہیں لکھی گئیں۔
(۹)’’انما امرک اذا اردت ان یقول لہ کن فیکون‘‘ تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے وہ تیرے حکم سے فی الفور ہوجاتی ہے۔ (حقیقت الوحی ص۱۰۵، خزائن ج۲۲ ص۱۰۸)
حضرت علی کرم اﷲ وجہ فرماتے ہیں۔ ’’عرفت ربی بفسخ العزائم‘‘ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے پورا نہ ہونے سے پہچانا۔ قرآن پاک میں ہے۔ ’’وما من دابۃ فی الارض الا ہوآخذبنا صیتھا‘‘ زمین پر کوئی چلنے والا نہیں۔ (عام اس سے کہ مرزاقادیانی ہوں یا چغتائی جی) مگر ہمارے ہاتھ میں اس کی چوٹی ہے۔