اٹھانے والے ہیں۔ پھر مارنے والے ہیں۔ پھر قیامت تک تمہیں تمہارے منکروں پر غالب کرنے والے ہیں۔ اسی وجہ سے مرزاقادیانی نے تقدیم وتاخیر کا انکار کر کے نہ صرف مفسرین کو یہودی بنایا۔ بلکہ حضورﷺ کے چچازاد بھائی حضرت ابن عباسؓ پر بھی خفا ہوگئے کہ کم از کم یہی سوچتے کہ میں نے وفات مسیح کو اپنی صداقت کا معیار بنارکھا ہے۔ اگر تمہارا قول میں مان لوںگا تو جھوٹا نہ ہوجاؤںگا۔ اس لئے تم کو بھی یہودی اور محرف علماء کی فہرست میں شمار کرتا ہوں۔
حامد: کیا کہیں یہ بھی مرزاقادیانی لکھ گئے ہیں کہ وفات مسیح ان کا معیار صداقت ہے۔
سعید: جی ہاں! (تحفہ گولڑویہ ص۱۶۶ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۲۶۴) پر لکھتے ہیں۔ ’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفین کے صدق وکذب آزمانے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات وحیات ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ درحقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگر وہ درحقیقت قرآن کی رو سے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں۔‘‘
حامد: یہ معیار مرزاقادیانی نے کسی حدیث کے ماتحت لیا۔ کیا کسی حدیث میں یہ ہے کہ جب عیسیٰ مرجائیںگے تو دوسرا مسیح ابن چراغ بی بی یا مسیح ابن فلاں قادیان یا پنجاب میں پیدا ہوگا۔ جس کے اوپر کے دھڑ میں مراق اور نیچے کے دھڑ میں کثرت بول کی دو بیماریاں ہوںگی۔
سعید: ہنس کر! شاید کسی حدیث میں مرزاقادیانی نے دیکھا ہوگا۔ سوال آپ کا معقول ہے۔ مرزاقادیانی کو حیات وممات پر اسی وقت بحث کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جب ایسی کوئی حدیث یا آیت قرآنی انہیں مل جائے۔ ورنہ یہی جواب کافی ہے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام مرگئے تو بتاؤ تمہیں کیا۔ اچھا مرگئے ان کے مرجانے کے ثبوت کے بعد تمہارا مسیح موعود یا مثیل مسیح ہونا کیسے ثابت ہے اور لطف یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے رفع روح مع الجسد کا عقلاً نقلاً انکار اور نہایت شدومد سے اصرار ہے۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کو اسی صورت میں زندہ ماننا اپنا مذہب بتایا جاتا ہے۔ حامد: اچھا یہ کہاں لکھا ہے۔
سعید: (نور الحق ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۸) پر لکھتے ہیں۔ ’’ان عیسیٰ الا نبی اﷲ کالانبیأ آخرین وان ھو الاخادم شریعت النبی المعصوم الذی حرم اﷲ علیہ المراضع حتیٰ اقبل علیٰ ثدی امہ وکلمہ اﷲ علی طورسینین وجعلہ