حامد: سچ ہے بقول مرزاقادیانی جھوٹے آدمی کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵) اور بالکل حق ہے کہ: ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۵۶ حاشیہ)
سعید: آپ نے بیچ میں غیر متعلق سوال کر کے ہماری بحث کو ناتمام کردیا۔ اچھا خیر سنئے۔ حضرت ابن عباسؓ کے فرمان سے دو دعوے تو ہم ثابت کر چکے۔
سوم… یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابن تک زندہ ہیں۔ اس لئے کہ ’’وانہ حی‘‘ بتارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں۔ بلکہ زندہ اٹھائیے گئے۔ جس سے مرزاقادیانی کا دعویٰ وفات مسیح باطل ٹھہرتا ہے۔ اس لئے کہ حضرت ابن عباسؓ خود فرماچکے ہیں کہ مسیح بجسد عنصری مع الروح اٹھائے گئے ہیں۔
چہارم… یہ کہ وہی عیسیٰ علیہ السلام جو آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔ ’’فسیرجع الیٰ الدنیا‘‘ بہت جلدی اصالتاً واپس تشریف لائیںگے اور مثیل مسیح کا دعویٰ باطل وبحث لاطائل ہے۔ پنجم… یہ کہ حضرت مسیح موعود اصالتاً تشریف لاکر حاکم عادل بن کر مجوزہ قانون سرورعالمﷺ ’’ویضع الجزیۃ ویقتل الخنزیر ویکسر الصلیب‘‘ کو جاری کریںگے۔
ششم… یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تانزول آسمان پر زندہ ہیں۔ اس لئے حضرت ابن عباسؓ فرماچکے ہیں۔ ’’ثم یموت کما یموت الناس‘‘
حامد: حضرت ابن عباسؓ کے متعلق محدثین کی کیا تحقیق ہے۔
سعید: آپ جلیل القدر صحابی ہونے کے علاوہ حضورﷺ کے چچازاد بھائی ہیں اور حضورﷺ نے آپ کے لئے قرآن فہمی کی دعاء بھی کی ہے۔
حامد: مگر بعض مفسرین حضرت ابن عباسؓ سے ہی متوفیک پر ممیتک ترجمہ لکھتے ہیں۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟
سعید: ہاں لکھ رہے ہیں وہ بھی صحیح ہے۔ اس لئے کہ ممیتک فاعل ہے۔ جس کا معنی ہیں۔ (مارنے والا ہوں میں تجھ کو) اس کا صاف مطلب ہے کہ اسم فاعل سے جب اظہار کیاگیا تو اوّل اﷲ تعالیٰ آئندہ کے واقعہ کی خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے عیسیٰ ہم تمہیں اوّل مع روح وجسد