چہارم… ’’ولقد خلقنا السمٰوٰت والارض وما بینہما فی ستۃ ایام‘‘ اس میں بھی ترتیب نہیں۔ اس لئے کہ زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی ہے۔ جیسا دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ ’’خلق الارض فی یومین ثم استوے الیٰ السماء وھی دخان فقال لہا‘‘ بحمدہ آیات مذکورہ کی مثالوں سے ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ کہ قرآن کریم میں جہاں امور قابل بیان ہوں وہاں ترتیب طبعی کا التزام تمام قرآن میں ہے۔ غلط اور محض لغو ہے۔ علاوہ اس کے بہت سی مثالیں قرآن کریم میں ہیں۔ مگر مختصر میں اختصار کا بھی لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ بدیں وجہ اسی پر اکتفاء کی گئی۔ اب مرزاقادیانی کی شیریں کلامی ملاحظہ ہوکہ غصہ میں آکر نہ صرف موجودہ علماء کو کوس گئے۔ بلکہ حضرت ابن عباس سید المفسرین اور صاحب اتقان اور ضحاک تابعی علامہ فتح القدیر، صاحب جلالین، صاحب مجمع البحار، صاحب تنویر، صاحب درمنثور، صاحب مدارک، صاحب تفسیر کبیر علامہ فخر الدین رازی، صاحب خازن، صاحب مشکوٰۃ سب کو اپنے مطلب کے خلاف دیکھ کر صاف کہہ گئے کہ حال کے متعصب ملا جن کو یہودیوں کی طرز پر ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ‘‘ کی عادت ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے مرزاقادیانی کے مرض مراق نے انہیں یہ راہ نمائی کی کہ جو میں کہوں وہ صحیح، باقی جو میرے مخالف ہو وہ یہودی اور قرآن میں تحریف کرنے والا۔ عام اس سے کہ وہ صحابی جلیل القدر ہو یا تابعی یا مسلمہ علمائ۔
حامد: آپ تو یہ کہے جارہے ہیں۔ مگر ذرا بتائیے تو جن لوگوں کے آپ نے نام لئے ہیں انہوں نے کہیں کہا بھی ہے۔
سعید: نام بنام ترتیب وار سب کی تحقیق آپ کو سناتا ہوں۔ ملاحظہ کیجئے۔ بہتر یہ ہے کہ اوّل آپ سید المفسرین ابن عباسؓ کا عقیدہ سن لیں۔ پھر تمام مفسرین مذکورہ ومحدثین کے اقوال عرض کروںگا۔ علامہ محمد بن سعد محدث اپنے طبقات کبریٰ میں حضرت ابن عباسؓ کا عقیدہ نقل فرماتے ہیں۔ ’’اخبرنا ہشام بن محمد بن السائب عن ابیہ عن ابی صالح عن ابن عباس قال کان بین موسیٰ بن عمران وعیسیٰ بن مریم الف سنۃ وتسعۃ مائۃ سنۃ فلم تکن بینہما فترۃ وان عیسیٰ علیہ السلام حین رفع کان ابن اثنین ثلاثین سنۃ وستۃ اشہر وکانت نبوۃ ثلاثون شہرا وان اﷲ