سعید: اس کے متعلق اوّل تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ مرزاقادیانی اندھا دھند جو دعویٰ کر گئے کہ امور قابل بیان کا ترتیب طبعی سے بیان کرنا التزام تمام قرآن کریم میں پایا جاتا ہے۔ یہ محض دعویٰ ہی دعویٰ ہے یا اس کی دلیل بھی ہے۔ بزرگوار کی قرآن دانی کا تو یہ حال ہے کہ آیات قرآنیہ تک صحیح نہیں لکھ سکتے اور دعویٰ اتنا زبردست کرگئے اور سورہ فاتحہ کی مثال دے کر سب کی آنکھوں میں دھول ڈال کر نکل گئے۔ جان عزیز اوّل تو یہ اصول ہی سرے سے غلط ہے کہ تمام قرآن کریم میں ترتیب طبعی کا لحاظ لازمی رکھاگیا ہے اور اگر اسکو صحیح مانتے ہو تو قرآن کریم معاذ اﷲ غلط ٹھہرتا ہے۔ مثال کے لئے چند آیات پیش کرتا ہوں۔ بتائیے اس میں ترتیب طبعی کہاں ہے۔
اوّل… نماز میں ترتیب طبعی یہ ہے کہ اوّل رکوع ہو پھر سجود۔ اگر قرآن کریم میں ہے ’’یمریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین‘‘ جس کے صاف معنی ہیں۔ اے مریم اپنے رب کے حضور ادب سے کھڑی ہو اور اس کے لئے سجدہ کر اور رکوع والوں کے ساتھ رکوع کر۔
دوم… ’’واوحینا الیٰ ابراہیم واسماعیل واسحق ویعقوب والاسباط وعیسیٰ وایوب ویونس وہارون وسلیمان وآتینا داؤد زبورا‘‘ کیا مرزاقادیانی اور ان کے متبعین یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ اس آیت میں وحی اور نبی میں ترتیب طبعی ہے۔ یعنی پہلے حضرت ابراہیم پر وحی ہوئی اور وہ نبی ہوئے۔ پھر اسماعیل علیہ السلام پر پھر اسحق علیہ السلام پر پھر یعقوب علیہ السلام پر پھر ان کی اولاد پر۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام پر پھر ایوب علیہ السلام پر پھر یونس علیہ السلام پر پھر ہارون علیہ السلام پر، پھر سلیمان علیہ السلام پر، پھر داؤد علیہ السلام۔ اس آیت میں داؤد علیہ السلام صاحب زبور سب کے بعد ہیں۔ حالانکہ توریت وانجیل سے پہلے زبور داؤد علیہ السلام کو ملی۔
سوم… ’’کذبت قبلہم قوم نوح وعاد وفرعون ذوالاوتاد وثمود وقوم لوط واصحاب الایکہ‘‘ اس میں ترتیب طبعی نہیں۔ اس لئے کہ پہلے قوم نوح ہوئی۔ اس کے بعد عاد وثمود۔ اس کے بعد اصحاب ایکہ۔ پھر قوم لوط پھر فرعون ذوالاوتاد اور ترتیب قرآنی سے نوح پھر عاد پھر فرعون۔ پھر ثمود۔ پھر قوم لوط۔ پھر اصحاب ایکہ ہیں۔ بتائیے ترتیب طبعی کہاں رہی۔