ناز بحث ہے اور ازالہ اوہام سے ایک مرزائی نے مجھے یہ بحث سنائی تھی۔ جس سے میں کچھ شک میں پڑ گیا۔ (ازالہ اوہام ص۹۲۲، خزائن ج۳ ص۶۰۶حاشیہ متعلقہ ص۸۹۲) میں اس طرح لکھا ہے۔ یہ آیت پوری پوری یہ ہے۔ ’’یعیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الیٰ یوم القیامہ‘‘ اس آیت میں خداتعالیٰ نے ترتیب وار اپنے تئیں فاعل ٹھہرا کر چار فعل اپنے یکے بعد دیگرے بیان کئے ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کفاروں کے الزاموں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے متبعین کو تیرے منکروں پر قیامت تک غلبہ دینے والا ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ ہر چہار فقرے ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں۔ کیونکہ اس میں شک نہیں کہ جو شخص خدائے تعالیٰ کی طرف بلایا جائے اور ’’ارجعی الیٰ ربک‘‘ کی خبر اس کو پہنچ جائے۔ پہلے اس کا وفات پانا ضروری ہے۔ پھر بموجب آئیہ کریمہ ’’ارجعی الیٰ ربک‘‘ اور حدیث صحیح کے اس کا خداتعالیٰ کی طرف رفع ہوتا ہے اور وفات کے بعد مؤمن کی روح کا خداتعالیٰ کی طرف رفع لازمی ہے۔ جس پر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ناطق ہیں۔ (پھر ص۹۲۴ تک لکھتے لکھتے کہتے ہیں) سو یہ چار فقرے آیت موصوفہ بالا میں ترتیب طبعی سے واقعہ ہیں اور یہی قرآن کریم کی شان بلاغت سے مناسب حال ہے۔ کیونکہ امور قابل بیان کا ترتیب طبعی سے بیان کرنا التزام تمام قرآن کریم میں پایا جاتا ہے۔ سورہ فاتحہ میں ہی دیکھو کہ کیونکر رب العالمین کا ذکر کیا۔ پھر رحمن پھر رحیم پھر مالک یوم الدین (آگے کہتے ہیں) غرض موافق عام طریق کامل البلاغت قرآن کریم کی آیت موصوفہ میں ہر چہار فقرہ ترتیب طبعی سے بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن حال کے متعصب ملا جن کو یہودیوں کے طرز پر ’’یحرفون الکلم من مواضعہ‘‘ کی عادت ہے اور جو مسیح ابن مریم کی حیات ثابت کرنے کے لئے بے طرح ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور کلام الٰہی کی تحریف وتبدیل پر کمر باندھ لی ہے وہ نہایت تکلف سے خداتعالیٰ کے ان چار ترتیب وار فقروں میں سے دوفقروں کی ترتیب طبعی سے منکر ہوبیٹھے یعنی کہتے ہیں کہ اگرچہ فقرہ ’’مطہرک من الذین کفروا‘‘ اور فقرہ ’’وجاعل الذین اتبعوا‘‘ بترتیب طبعی واقع ہیں۔ لیکن فقرہ ’’انی متوفیک‘‘ اور فقرہ ’’ورافعک الیّٰ‘‘ ترتیب طبعی پر واقع نہیں۔ بلکہ دراصل فقرہ ’’انی متوفیک‘‘ مؤخر اور فقرہ ’’رافعک الیّٰ‘‘ مقدم ہے۔‘‘ افسوس اس کا کیا جواب ہے؟