کے حالات سے کچھ بھی خبر نہیں۔‘‘ تو اب سمجھ لیجئے کہ ازالہ اوہام میں جب مطلب یوں معنی کرتے نہ بنا تو کہہ دیا کہ قصہ وقت نزول آیت زمانۂ ماضی کا ایک قصہ تھا اور یہاں نصرت الحق میں جب صحیح معنی کرنے میں مطلب بنا تو یہ کہہ دیا کہ خدا قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہے گا اور ازالہ اوہام میں قال اور ان کے ماضی ہونے پر اتنا زور دیا کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے اور پھر براہین احمدیہ میں جب دیکھا کہ مجھ پر خصم کی چوٹ پڑتی ہے تو کہہ دیا کہ جس شخص نے کافیہ یا ہدایۃ النحو بھی پڑھی ہوگی وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنی پر بھی آجاتی ہے۔ جیسا کہ اوّل میں ساری عبارت آپ کو بتاچکا ہوں۔ فرمائیے یہ کیسا کلام الٰہی کی ترجمانی اور تفسیر میں تناقض ہے جو بقول مرزاقادیانی جھوٹے آدمی کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی جھوٹے آدمی ہوئے یا نہیں۔ اس کی وجہ بھی آپ سمجھ سکے کہ اس طرح متضاد مضامین مرزاقادیانی کیوں لکھ جاتے ہیں۔
حامد: مراق کی وجہ سے دماغ میں ضعف اور نسیان میں ترقی ہوئی ہوگی۔
سعید: خیر یہ وجہ تو ایسی ہے کہ اسے تو قریب قریب سب ہی جانتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آپ باقاعدہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔
حامد: یہ بات قابل تسلیم نہیں ہوسکتی۔ اگر باقاعدہ تعلیم یافتہ نہ تھے تو یوں ہی اتنی ساری کتابیں عربی اردو میں لکھ ڈالیں۔
سعید: اس کا بھی مرزاقادیانی خود اقرار کر رہے ہیں۔ چنانچہ نصرۃ الحق جو حقیقتاً دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کا ہے۔ اس کے (ص۵۳، خزائن ج۲۱ ص۶۷) پر لکھتے ہیں ’’اور نہ میں کسی عالم فاضل سے باقاعدہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ تھا۔ تا مجھے اپنے سرمایہ علمی پر ہی بھروسہ ہوتا۔‘‘
حامد: یہ بھی ایک عجیب معاملہ ہے کہ باقاعدہ تعلیم یافتہ بھی نہ ہونا اپنے کو مان رہے ہیں اور پھر خدا کے کلام کی توجیہات وتاویلات کے میدان میں بھی گام فرسا ہیں۔
سعید: یہی تو وجہ ہے کہ آپ کو خیریت سے قرآن کریم کے معنی میں ہر جگہ اپنے مراق سے کام لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ ’’یاآدم اسکن انت وزوجک الجنۃ‘‘ کے ماتحت ملاحظہ کیجئے۔ کیسی نفیس ولطیف بحث فرمائی ہے کہ سننے والا ایک دفعہ تو پیٹ بھر کے ہنسنے پر مجبور ہوگا۔
حامد: کیا اس کے معنی بھی بدلے ہیں۔