’’جس شخص نے کافیہ یا ہدایۃ النحو بھی پڑھی ہوگی۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنی پر بھی آجاتی ہے۔ بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو۔ مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تااس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظریں ہیں۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’ونفخ فی الصور فاذاہم من الاجداث الیٰ ربہم ینسلون‘‘ اور جیسا کہ فرماتا ہے: ’’واذ قال اﷲ یعیسیٰ بن مریم أانت قلت للناس اتخذونی وامی الھٰین من دون اﷲ‘‘ (اسی طرح چند اور امثلۂ قرآنی پیش کرتے کرتے ص۷ تک آکر آگے کہتے ہیں) اب معترض صاحب فرمائیں کہ کیا یہ قرآنی آیات ماضی کے صیغے ہیں یا مضارع کے۔ اگر ماضی کے صیغے ہیں تو ان کے معنی اس جگہ مضارع کے ہیں یا ماضی کے۔ جھوٹ بولنے کی سزا تو اس قدر کافی ہے کہ آپ کا حملہ صرف میرے پر نہیں۔ بلکہ یہ تو قرآن شریف پر بھی حملہ ہوگیا۔ گویا وہ صرف نحو جو آپ کو معلوم ہے خدا کو معلوم نہیں۔ اسی وجہ سے خدا نے جابجا غلطیاں کھائیں اور مضارع کی جگہ ماضی کو لکھ دیا۔‘‘ اب آپ فرمائیے کہ مرزاقادیانی جو ازالہ اوہام میں لکھ آئے ہیں۔ اسی صرف نحو سے لکھ آئے یا نہیں جس صرف ونحو کو معاذ اﷲ خدا بھی نہ جانتا تھا اور مرزاقادیانی نے اپنی تحریر سے خود اقرار کیا یا نہیں کہ میں قرآن پر حملہ کر کے اپنا جھوٹا دعویٰ ثابت کرنا چاہتا ہوں۔
حامد: بھائی جان! اب مجھے اور کسی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ اﷲ آپ کے علم ومعلومات میں ترقی دے۔ خوب شافی جواب دیتے ہو۔
سعید: نہیں اور لیجئے! ازالہ اوہام میں تو کہہ آئے ہیں کہ یہ واقعہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے أانت قلت کا سوال ہوچکا۔ مگر نصرۃ الحق دیباچہ ہے۔ (ااس میں ص۴۰، خزائن ج۲۱ ص۵۱) پر خوب اپنے کو کاذب مانا ہے۔ لکھتے ہیں ’’اور قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ ہرگز نہیں آئیںگے۔ جیسا کہ آیت فلما توفیتنی سے یہ دونوں مطلب ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس تمام آیت کے اوّل آخر کی آیتوں کے ساتھ یہ معنی ہیں کہ خداقیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہے گا کہ کیا تو نے ہی لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود ٹھہرانا تو وہ جواب دیںگے کہ جب تک میں اپنی قوم میں تھا میں ان کے حالات سے مطلع تھا اور گواہ تھا۔ پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان کے حالات سے واقف تھا۔ یعنی بعد وفات مجھے ان