حامد: ازالہ اوہام مرزائیوں کی کوئی کتاب ہے۔
سعید: ہاں ہے۔
حامد: اس کے حصہ دوم میں ص۶۰۲ کا ایک مفصل مضمون مرزاقادیانی کا ایک مرزائی نے مجھے دکھایا جس کے پڑھنے سے مجھے یہ اطمینان ہوگیا کہ وہ صحیح ہے۔
سعید: وہ کیا مضمون تھا۔ مجھے بھی تو سنائیے۔ لیجئے یہ ازالہ اوہام ہے اور وہ ہے جو مرزاقادیانی کی ابتدائی زمانہ ۱۳۰۸ھ میں ریاض ہند امرتسر کے ذریعہ کل سات سو چھوٹی تقطیع پر طبع ہوا تھا۔
حامد: ہاں اسی تقیطع کا میں نے دیکھا تھا اس کا ص۶۰۲ نکالئے۔
سعید: یہ لیجئے۔
حامد: (ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۵) سے بحث شروع کی ہے۔ ’’افسوس کہ بعض علماء جب دیکھتے ہیں کہ تو فی کے معنیٰ حقیقت میں وفات دینے کے ہیں تو پھر یہ دوسری تاویل پیش کرتے ہیں کہ آیت فلما توفیتنی میں جس توفی کا ذکر ہے وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد واقع ہوگی۔ لیکن تعجب کہ وہ اس قدر تاویلات رکیکہ کرنے سے ذرا بھی شرم نہیں کرتے۔ وہ نہیں سوچتے کہ آیت فلما توفیتنی سے پہلے یہ آیت ہے۔ ’’واذ قال اﷲ یعیسیٰ أانت قلت للناس‘‘ اور ظاہر ہے کہ قال کا صیغہ ماضی کا ہے اور اس کے اوّل اذ موجود ہے۔ جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت زمانۂ ماضی کا ایک قصہ تھا نہ زمانہ استقبال کا اور پھر ایسا ہی جو جواب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے۔ یعنی فلما توفیتنی ہے وہ بھی بصیغۂ ماضی ہے۔ اس مضمون سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے علماء جو اس کو دلیل میں پیش کرتے ہیں غلط ہے۔‘‘
سعید: بھائی جان بے علمی بری بلا ہے۔ اوّل تو مرزاقادیانی کو قرآن ہی نہیں آتا۔ یا یوں کہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا جہاں ذکر آتا ہے مرزاقادیانی غصہ میں ازخود رفتہ ایسے ہو جاتے ہیں کہ ہوش ہی نہیں رہتا۔ قرآن کریم میں یہ آیت یوں نہیں ہے۔ جیسے مرزاقادیانی نے نقل کی ہے۔ بلکہ یوں ہے۔ ’’واذ قال اﷲ یعیسیٰ بن مریم‘‘ علاوہ اس کے چونکہ مرزاقادیانی پہلے بتاگئے ہیں کہ جھوٹے آدمی کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے تو ضروری ہے کہ اس کلام میں بھی مرزاقادیانی کے تناقض ہو۔ چنانچہ ملاحظہ کیجئے (ضمیمہ براہین احمدیہ ص۶، خزائن ج۲۱ ص۱۵۹) پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔