تذکیرات جمعہ |
|
مجھے سونچنے دو،چنانچہ تھوڑی دیر سونچ کر کہنے لگا کہ یہ جادو ہے،جس کا اثر دوسروں میں منتقل کیاجارہا ہے۔(الجامع الصحیح للسنن والمسانید:۱۴؍۲۸۴) جس آدمی پر ٹرسٹ کرکے اس کی ذہانت اور اس کی فہم کے پیش نظر اس کو بھیجا گیاتھا وہ خود اس کلام کو سن کر حیرت میں پڑ گیا،کوئی جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگا کہ یہ جادو ہے۔خطبہ میں آیتِ مذکورہ کی ابتدا کب اور کیوں ہوئی؟ چونکہ یہ آیت خطبہ میں پڑہی جاتی ہے اس لئے اس کی جامعیت اور فضیلت سے متعلق چند باتیں ذکر کی گئیں،اور آیت میں کیا کیامضامین ہیں انشاء اللہ وہ بھی بیان کئے جائیں گے،لیکن اس سے قبل ایک بات اس آیت سے متعلق یہ ذہن میں رکھیں کہ کیا اس آیت کی تلاوت آپکے زمانے میں کی جاتی تھی،یا بعد میں اس کی ابتدا ہوئی؟اگر بعد میں اس کی ابتدا ہوئی تو کیوں ہوئی؟اورکیا یہ بدعت نہیں ہے؟ اس کا جواب علامہ سیوطینےیہ دیاہے کہ در اصل بنو امیہ کے خلفاء سنہ(۴۱ ہجری جس میں حضرت حسن نے خلافت کو چھوڑ کر حضرت امیر معاویۃ سے صلح کی تھی ) سےلے کر سنہ۹۹ ہجری یعنی سلیمان بن عبد الملک کے زمانہ کے آخر تک حضرت علی کو منبروں پر برا بھلا کہتے تھے،یہ بات تو طے ہے کہ بنو امیہ حضرت علی کی شان میں گستاخی کرتے تھے،لیکن سنہ ۴۱ ھ سے ۹۹ ھ تک منبروں پر خطبہ کے دوران یہ عمل کچھ قابل تامل ہے،غرض جب حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو ان کے اس طرز کو بند کیا،اور اپنے نائبین کے پاس یہ لکھ کر بھیجا کہ خطبے میں اس آیت:’’إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبٰی وَيَنْهیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘کی تلاوت کی جائے،تاکہ حضرت علی کا مقام و مرتبہ لوگوں کی نظر میں قائم رہے،اور لوگ ان پر لعن و طعن اور سب وشتم سے رک جائیں،چنانچہ ان کے کہنے پر اس بےہودہ رواج کا خاتمہ