تذکیرات جمعہ |
|
نام لیتے تھے،جب ان کا ثبوت ہی نہیں ہے تو جمعہ کے خطبہ میں کیوں خلفاءِ راشدین کا ذکر کیا جاتا ہے؟اس کی ابتداء کب ہوئی؟کیوں ہوئی؟کیسے ہوئی؟ اس سے متعلق چند باتیں ذہن میں رکھنا چاہئے۔کیا خطبہ میں خلفاءِ راشدین کا ذکر بدعت ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ اہل حق علماء میں سے کوئی اس کی سنیت کا قائل نہیں ہے،بلکہ سب اس کو مستحسن اور مستحب کہتے ہیں۔ہاں اگراس کو سنت کہاجائے اور نبیسے ثابت ماناجائے تو یہ بدعت شمار ہوگی،لیکن سنیت کا اعتقاد رکھے بغیراس کو وقت کی ضرورت اور ان خلفاء اوراہلِ بیت کی عظمت اور محبت کو دل میں برقراررکھنے کے لئے اس کا ذکر کیا جائے تو مستحب اور مستحسن اور باعثِ اجر وثواب ہے،کیونکہ قرآن و حدیث میں ان کی بے شمار فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، اور ہمارے اس معاشرہ میں چند جاہل ان خلفاءکےبارے میں ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے شبہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کے دل میں نفاق تو نہیں ہے،وہ ان صحابہ کے بارے میں بدگمانی پھیلاتے ہیں، ان کو برا بھلا کہتے ہیں،ان پر لعن طعن کرتے ہیں،حتی کہ کچھ ان کو کافر تک قرار دیتے ہیں اور ان کی یہ باتیں فرمانِ نبی اور شہادت رسول کے خلاف بلکہ صحابہ ،اللہ اور رسول سے بغض کی علامت ثابت ہوتی ہیں،احادیث میں نبینے تو ان کے لئےجنتی ہونےکی اور مقتدا ہونے کی شہادت دی ہے، قرآن ان کے پاکیزہ اور ہدایت یافتہ ہونے کی شہادت دے رہا ہے اور اللہ پاک ان کے تقوی اور طہارت کے اعلان کے ساتھ ساتھ اپنی رضا کا پروانہ ان کے حق میں سنا رہے ہیں،اور ان کی شان میں آیاتِ قرآنیہ نازل کی جارہی ہیں، اورا حادیث مبارکہ ان کی اتبا ع اور ان کی سنتوں کو اپنانے کا حکم دے رہی ہیں ،اور ان سے بغض رکھنے،ان کو گالی دینے،ان کو تکلیف دینے ان کو برا بھلا کہنے کو اللہ اور اس کے رسول کو گالی دینے اور اللہ اور رسول کوبرا بھلاکہنے کےمرادف قرار دےرہی ہیں،اور ادھران مقدس صحابہ کے بارے میں کچھ بددینوں اور جاہلوں کی زبان درازی ’’وَلَعِنَ آخِرُ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اَوَّلَھَا‘‘ کی مصداق ہے، اس لئے اس پس منظر