تذکیرات جمعہ |
|
ہماری عبادات آج صرف قرض لینے کی طرح ہوگئی ہیں کہ کسی طرح اس کو ادا کردیاجائے،اور ذمہ سے بری ہوجائیں،اس لئےجیسے تیسے اس کو اداکردیتے ہیں اور نکل پڑتے ہیں،اور کوئی حسن، کوئی زینت، کوئی خوبی،کوئی کمال اس میں ہم پیدا کرنا ہی نہیں چاہتے،ایسا محسوس ہوتا ہے گویا صفتِ احسان سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔احسان کی تفسیر : اب سوال یہ ہےکہ احسان کسے کہتے ہیں؟ ہم اردو میں اس کا مطلب نیکی،حسن سلوک، بھلائی،مہربانی ،عملِ خیر سے بیان کرتے ہیں،لیکن عربی میں احسان کا یہ مفہوم نہیں ہے،بلکہ عربی میں احسان کے اس معنیٰ کے لئےلفظ ’’مَنٌّ‘‘ استعمال کیاجاتا ہے، لفظ احسان کے اگرچہ یہ معانیٰ بھی آتے ہیں لیکن زیادہ تر لفظ’’مَن‘‘ استعمال ہوتا ہے ۔جیسےقرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا:’’يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذٰى‘‘(البقرۃ:۲۶۴) ’’اے ایمان والو تم احسان جتلاکر یا ایذا پہنچاکر اپنی خیرات کو برباد مت کرو ‘‘ عربی میں احسان کا مطلب ہےکسی کام کو عمدگی کے ساتھ اور بہتر سے بہتر طریقے پر کرنا۔علماء نےاس کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں۔ (۱)احسان سے مراد یہ ہے کہ فرائض اداکئے جائیں۔ (۲)نوافل ادا کئے جائیں۔ (۳)باطن ظاہر سے اچھا ہو۔حضرت عیسیٰ اوراحسان کی تفسیر : حضرت عیسی سے احسان کی ایک تفسیر منقول ہے،لکھا ہے: كَانَ عِيْسٰى بْنُ مَرْيَمَؑ يَقُوْلُ اِنَّ الْاِحْسَانَ لَيْسَ اَنْ تُحْسِنَ اِلٰى مَنْ اَحْسَنَ اِلَيْكَ اِنَّمَا تِلْكَ مُكَافَاةٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَلٰكِنَّ الْاِحْسَانَ بِاَنْ تُحْسِنَ اِلٰى مَنْ اَسَاءَ اِلَيْكَ‘‘ (الزھد لاحمد ابن حنبل:۱:۵۷۔ وروح :۱۰؍۲۷۹)