تذکیرات جمعہ |
|
اس کا حق زیادہ ہوتا ہے،ان سب رشتہ داروں کےساتھ حسنِ سلوک کا حکم ہے،اب اس حسنِ سلوک میں عظمت کو بھی ملحوظ رکھنا ہوتا ہے،اور ضرورت کو بھی مد نظررکھنا پڑتا ہےاور رشتہ کا لحاظ بھی کرنا پڑتا ہے۔اسلام میں انکل اور آنٹی کا تصور نہیں : آج ہم اپنے ان رشتہ داروں کے لئے آنٹی اور انکل کا لفظ استعمال کرتے ہیں،لیکن اسلام میں اس انکل اور آنٹی کاکوئی کانسپٹ نہیں ہے ،کیونکہ انکل ، آنٹی اورکزن کے الفاظ رشتہ داریوں اور ان کے حقوق کی وضاحت نہیں کرتے،آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ کون ماموں ہے؟کون پھوپی ہے؟کون چچا ہے؟کون خالہ ہے؟کون ممانی ہے؟کیونکہ جوممانی ہوتی ہے وہ الگ ہوتی ہے، جو چچی ہوتی ہے وہ الگ ہوتی ہے، جو پھوپی ہوتی ہے وہ الگ ہوتی ہے ،جو خالہ ہوتی ہے وہ الگ ہوتی ہے،جب یہ سب آنٹی بن گئے تو ان کی رشتہ داری کا اور ان کے حقوق کا کیسے پتہ چلے گا؟ظاہر ہے کہ ان میں چچی اور ممانی تو شادی کی وجہ سے قرابت میں داخل ہیں، شادی ختم تو قرابت بھی ختم، لیکن خالہ اور پھوپی سے تو قرابت کبھی ختم ہی نہیں ہوسکتی،اور خالہ اور پھوپی میں خالہ کا مرتبہ بڑھا ہوا ہے، کیونکہ وہ ماں سے قریب ہے، حتی کہ اگر ماں کا انتقال ہوجائے اور اس کی چھوٹی اولاد ہے،کوئی سنبھالنے والا نہ ہو توپھوپھی کے مقابلہ میں خالہ کو حق پہونچتا ہے کہ وہ اس کی اولاد کی پرورش کرے۔غیروں کی تہذیب نے رشتوں کو بھلادیا : لیکن ہم ان الفاظ کو استعمال کرکے ان رشتوں کو بھلادیتے ہیں،ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ وہ کونسا رشتہ دار ہے؟بس رشتہ ہے یہ معلوم ہوتاہے،لیکن کونسا رشتہ ہے یہ پتہ نہیں ہوتا،جب ان کی رشتہ داری کا ہی پتہ نہیں چلتا ہے تو ان کے حقوق کیسے ادا کئے جاسکتے ہیں؟کیونکہ ہر ایک کےحقوق الگ الگ ہیں، ماموں کے حقوق الگ ہیں، چچا کے حقوق الگ ہیں،پھو پھا کے حقوق