تذکیرات جمعہ |
|
تو قصہ ختم، بحث کا موقع ہی نہیں ہے ،اس سے رکنا ضروری ہوگا،اب اس میں کوئی حیلہ نہیں ، کوئی تدبیر نہیں،کوئی عذر نہیں،کوئی بہانہ قابل قبول نہ ہوگا۔منکر کےدرجات : ہاں ان منکرات کے بارے میں کچھ تفصیل ہے،اس کے کچھ درجات ہیں،کچھ تو وہ ہوتے ہیں جن کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے تو ان کا کرنا حرام ہوتاہے،ان کی حرمت بہت زیادہ ہوتی ہے،اور کچھ منکرات وہ ہوتے ہیں جو دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہوتے بلکہ دلیل ظنی سے ثابت ہوتے ہیں، ان کا منکر ہونا حرام کے درجہ کا نہیں ہوتا،بلکہ کم درجہ کا ہوتا ہے،اس کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں،لیکن اس کا کرنا بھی حرام کے قریب قریب ہوتا ہے،اور کچھ منکرات وہ ہوتے ہیں جن سےعارضی طور پر یا کسی مصلحت کی وجہ سے رحم اور شفقت کی بنیاد پر کسی چیز یا کسی عمل سے روکا جاتا ہے تو اس کا منکر ہونا اور ہلکے درجہ کا ہوجاتا ہے،یہ کراہت کراہتِ تنزیہی ہوتی ہے،یہ کرنا خلاف اولیٰ ہوتا ہے،اگر کرلیں تو گناہ نہیں ہوتا،تاہم اس کا نہ کرنا بہتر ہوتا ہے، غرض چاہے منکر کسی درجہ کا ہو اس سے بچنا چاہیئے،کیونکہ وہ ہے ہی ناپسندیدہ،تبھی تو اس سے روکاگیا،منع کیا گیا،اس لئے ان سے رکنا چاہیے۔ ’’وَالِاسْتِنْكَارُ مَرَاتِبٌ، مِنْهَا مَرْتَبَةُ الْحَرَامِ، وَمِنْهَا مَرْتَبَةُ الْمَكْرُوهِ فَإِنَّهٗ مَنْهِيٌّ عَنْهُ. .‘‘ (التحریر والتنویر:۱۴؍۲۵۷)بغی کی حقیقت : تیسری چیزجس سے اس آیت میں روکا گیا ہے وہ بغی ہے،بغی کسے کہتے ہیں؟ تو مفسرین نے اس کے بارے میں لکھا ہے: ’’وَالْبَغْيُ : هُوَ الْكِبْرُ وَالظُّلْمُ وَالْحَقْدُ وَالتَّعَدِّیْ وَحَقِيْقَتُهٗ تَجَاوُزُ الْحَدِّوَهُوَ دَاخِلٌ تَحْتَ الْمُنْكَرِ لٰكِنَّهٗ تَعَالٰى خَصَّهٗ بِالذِّكْرِ اِهْتِمَامًا بِهٖ لِشِدَّةِ ضَرَرِهٖ‘‘(روح المعانی:۱۰؍۲۸۰،و تفسیرِ رازی:۹؍۴۵۲)