تذکیرات جمعہ |
|
لیکن سماحت جب مالیات میں ظاہر ہوتو سخاوت ہے لیکن وہی سماحت جب اخلاقیات میں آئے تو وہ عفت ہے،مختلف اعتبارات سے اس کے مختلف نام ہیں،وہ ایک مرکزی وصف ہوتا ہے، خلاصہ اس کا قربانی اور جذبۂ ایثار ہے۔چوتھی چیز عدالت ہے، جس کا ذکر قرآن پاک کی اس آیت میں ہے۔ غرض اس امت میں اعتدال کی تعلیم ہے،اوریہ اعتدال ہر چیز میں مطلوب ہے،عبادات ہوں یاعقائد،معاملات ہوں یا معاشرت، اخلاقیات ہوں یا سیاست ،اقوال ہوں یا اعمال۔اپنوں کے ساتھ ہو یا غیروں کے ساتھ، ہرچیز میں اعتدال مطلوب ہے،اور اعتدال کا مطلب یہ ہے افراط اور تفریط کے بغیر ان چیزوں کو ان کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا۔عقائد میں اعتدال : عقائد میں عدل یہ ہے کہ عقیدۂ توحید اختیار کیاجائے،نہ فرقۂ معطلہ کی طرح باری تعالیٰ کے بے کار اور مخلوق کے ساتھ عدمِ تعلق کا عقیدہ رکھاجائے اور نہ مشرکین کی طرح باری تعالیٰ کی ذات یا صفات اور افعال میں کسی کو شریک سمجھاجائے، ایسے ہی تقدیر کے مسئلہ میں بندوں کونہ مجبور محض ماناجائے اور نہ مختار محض سمجھ کر تقدیر ہی کا انکار کردیاجائے۔(روح المعانی:۱۰؍۲۷۹)نبی کو اعمال میں اعتدال کا حکم : ایسے ہی اعمال میں بھی اعتدال کی تعلیم ہے،نہ افراط کی گنجائش ہے اور نہ تفریط کی،جیساکہ نبی علیہ السلام نے جب عبادات میں مبالغہ کیا تو اللہ پاک نے سورۂ طہ کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں،ابتداء میں رسول اللہ تمام رات عبادت کے لئے کھڑے رہتے اور نماز تہجد میں تلاوت قرآن میں مشغول رہتے تھے یہاں تک کہ آنحضرت کے قدمین مبارک پر ورم آجاتا تھا،تو اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’طه مَا أَنَزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰى‘‘( طه :۱ ،۲) کہ ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت اور تکلیف میں پڑ جائیں۔