تذکیرات جمعہ |
|
اور ایسے فرقے پائے جاتے ہیں،اور ان صحابہ کی محبت میں کمی پائی جاتی ہے،اور ان کی عقیدت دلوں سے جاتی جارہی ہے،اور ان مقدس ہستیوں پر زبان درازی آسان ہوگئی ہے،اس لئے آج بھی اس کی سخت ضرورت ہے کہ ان کا ذکر ِخیر کیا جائے،اور ان فتنوں کا سد باب کیا جائے،اور ان بد دین اور جاہلوں کے منفی خیالات اور ان کی جانب سے پھیلائی جانےوالی گمراہی سے امت کو بچایا جاسکے۔(منھاج السنۃالنبویۃ:4؍۸۰)علامہ ابن تیمیہکا فتویٰ : اس بارے میں علامہ ابن تیمیہکے فتویٰ کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے،منہاج السنۃ میں ان کا یہ فتویٰ مذکور ہے: ’’فَاِذَا قُدِّرَ اَنَّ الْوَاجِبَاتِ الشَّرْعِيَّةَ لَا تَقُوْمُ اِلَّا بِاِظْهَارِ ذِكْرِ الْخُلَفَاءِ وَاَنَّهٗ اِذَا تُرِكَ ذٰلِكَ ظَهَرَ شِعَارُ اَهْلِ الْبِدَعِ وَالضَّلَالِ صَارَ مَامُوْرًا بِهٖ فِيْ مِثْلِ هٰذِهِ الْاَحْوَالِ‘‘(منھاج السنۃ النبویۃ لابن تیمیۃ:۴؍۷۹ تا۸۷) جب یہ بات مان لی گئی کہ شرعی واجبات قائم نہیں کی جاسکتیں مگر خلفاء کے ذکر سے ،اور جب اس کو ترک کیا جائے تو اہل بدعت اور گمراہ لوگوں کے شعائر ظاہر ہوں گے تو ان کا ذکر بھی مامور بہ ہوگاان جیسے احوال میں۔ خود ابن تیمیہ نے وقت کی ضرورت کے پیش نظر ان خلفاء کے ذکرکودین کے شعائر میں سے قرار دے رہے ہیں ،لیکن ان جاہلوں کو کون سمجھائے کہ ان کے مقتدا ؤں نے تو اس کو دین کا شعار قرار دیا اور یہ بدعت قرار دے رہے ہیں۔خطبہ میں خلفاء کے ذکر کی ابتداء صحابہ سےثابت ہے : بلکہ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ اس کی ابتدا تو حضرت عمرابن خطاب کے زمانے میں ہوگئی تھی،اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابوموسیٰ اشعری جمعہ کے دن بصرہ کے منبر پر خطبہ کے لئے کھڑے ہوتے تو حضرت عمر کی تعریف کرتے،اور ان کے لئے دعا کرتے، ایک مرتبہ ضبہ بن محصن العنزی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ عمر کا ذکر کرتے ہیں اور ان کو حضرت ابو بکر صدیق پر فضیلت دیتے ہیں،اور ابو بکر صدیق کا ذکر نہیں کرتے؟